یوکرین نے روسی فوج کے زیر استعمال ایران کا “خودکش ڈرون” مار گرایا

کیف (ڈیلی اردو/وی او اے/اے پی) یوکرین کی فوج نے منگل کو پہلی بار یہ دعویٰ کیا ہے کہ اس نے روسی حملے کے دوران ایک ایسا “خودکش ڈرون” مار گرایا، جو ایرانی ساختہ تھا۔ یوکرین کی جنگ میں ایرانی ساختہ ڈرون کا مار گرایا جانا صرف ایک مہلک ہتھیار کو تباہ کرناہی نہیں ہے بلکہ اس سے یہ منکشف بھی ہوتا ہے کہ اس جنگ میں ایران یوکرین کے خلاف روس کی مدد کر رہا ہے۔

جولائی میں امریکی انٹیلی جنس نے کہا تھا کہ ایران نے یوکرین کے خلاف جنگ میں مدد کے لیے بم برسانے والے سینکڑوں ڈرون روس بھیجنے کا منصوبہ بنایا ہے۔ تاہم اس وقت ایران نے ان خبروں کو مسترد کر دیا تھا۔

بعد ازاں میڈیا میں یہ خبریں گردش کر نے لگیں کہ ایران روس کو میدانِ جنگ میں استعمال کیے جانے والے ڈرون فراہم کر رہا ہے۔حالیہ دنوں میں ایران کی نیم فوجی سپاہ کے سربراہ نےکہا تھا کہ انہیں اس بات پر فخر ہے کہ ایران عالمی طاقتوں کو مسلح کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔

ایران کئی طرح کے ڈرون بنا رہا ہے جن کی ایک قسم کو” خودکش ڈرون” کہا جاتا ہے۔

خودکش ڈرون اصل میں ایک اڑتا ہوا بم ہے جسے ایک سافٹ ویئر کے ذریعے پروگرام کر کے اپنے ہدف کی جانب روانہ کر دیا جاتا ہے۔ ڈرون مقررہ مقام پر پہنچنے کے بعد، طے شدہ منصوبے کے مطابق یا تو ہدف کے قریب فضا میں پھٹ کر تباہی پھیلاتا ہے یاہدف سے ٹکرا کر اسے نیست و نابود کر دیتا ہے۔

یوکرین کی فوج کے اسٹرٹیجک کمیونیکیشنز کے ڈائریکٹوریٹ نے گرائے جانے والے ڈرون کے ایک ٹکڑے کی تصویر جاری کی ہے جو مثلث شکل کے ایرانی ساختہ ڈرون سے مشابہت رکھتا ہے۔ ایران میں ڈرون کی یہ قسم “شاہد” کے نام سے اپنی پہچان رکھتی ہے۔ فارسی زبان کے اس لفظ کا مطلب ہے” گواہ”۔

یوکرینی فوج کے عہدے داروں اور سرکاری ویب سائٹ ، دونوں کا کہنا ہے کہ اس ڈرون سے یوکرینی فوجیوں کا سامنا مشرقی محاذ پر کیوپیانسک کے قریب ہوا جہاں یوکرینی فورسز نے روس کی فوج کو بھاری نقصان پہنچا کر پیچھے ہٹنے پر مجبور کر دیا ہے۔

یوکرینی فوج کی جانب سے جاری کی جانے والی ڈرون کی تصویر یہ ظاہر کرتی ہے کہ اسے مار گرایا گیا ہے اور اس میں نصب بم پھٹ نہیں سکا ، جو نقصان کا سبب بن سکتا تھا۔ کیف نے اس ڈرون کے متعلق جو ایران کے” شاہد” ماڈل جیسا ہے، بہت کم تفصیلات جاری کیں ہیں۔

تصویر میں ڈرون کے ٹکڑے پر ” M214 Gran-2″ کے الفاظ کندہ ہیں۔ ہتھیاروں اور گولاباردو پر عموماً مختلف قسم کے الفاظ اور نشانات ثبت ہوتے ہیں جس سے ان کی قسم کے ساتھ ساتھ یہ نشان دہی بھی ہوتی ہے کہ اس کا تعلق کس ملک کے اسلحه خانے سے ہے۔

جنگی ہتھیاروں پر نظر رکھنے والے ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ الفاظ یا علامتی نشان روسی ہتھیاروں سے مطابقت نہیں رکھتے اور یقینی طور پر اس ڈرون کا تعلق روسی ہتھیاروں سے نہیں ہے۔

خبررسا ں ادارے ‘ایسوسی ایٹڈ پریس’ کا کہنا ہے کہ اس نے اس بارے میں وضاحت کے لیے اقوامِ متحدہ میں ایرانی مشن کو لکھا تھا لیکن فوری طور پر اس کی جانب سے جواب موصول نہیں ہوا۔

ایسوسی ایٹڈ پریس کا کہنا ہے کہ ایران کئی طرح کے ڈرون تیار کرتا ہے۔ ایرانی ساختہ ڈرون کی ایک قسم نے خلیج فارس میں امریکہ کے طیارہ بردار بحری جہاز کے اوپر سے پرواز کی تھی۔اس قسم کے ڈرونز کو یمن کے باغی عسکریت پسندوں نے ، جنہیں ایران کی سرپرستی حاصل ہے، سعودی عرب کے تیل کے ڈپوؤں پر حملوں میں استعمال کیا تھا۔ اور اسی نوعیت کے ڈورن کے حملے میں 2021 میں عمان کے قریب ایک آئل ٹینکر پر دو ملاح ہلاک ہو گئے تھے۔

مثلث شکل کے اس ڈرون کے متعلق ماہرین کا کہنا ہے کہ وہ طویل پرواز کی صلاحیت رکھتا ہے اور ایک اڑان میں مسلسل دو ہزار کلومیٹر تک فضا میں رہ سکتا ہے۔اس قسم کے ڈرونز کو ماہرین اڑتے ہوئے بم یا خودکش ڈرون کہہ کر پکارتے ہیں۔ یہ ڈرون پروگرام شدہ جدید میزائلز کی طرح اپنے ہدف کی جانب پرواز کرتے ہیں اور وہاں پہنچ کر پھٹ جاتے ہیں۔

سن 2018 میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے ایران کے جوہری معاہدے سے یک طرفہ طور پر الگ ہونے اور سخت تر اقتصادی پابندیوں کے نفاذ نے ایران کو روس کے قریب تر کر دیا ہے۔ یورینیم کی افزدوگی کو محدود کرنے کے بدلے ایران پر سے پابندیاں اٹھانے سے متعلق جوہری مذاکرات میں ایک بار پھر تعطل پیدا ہو گیا ہے۔

ایران اور یوکرین کے درمیان تعلقات کی نوعیت انتہائی کشیدہ ہے جس کی ابتدا 2020 میں اس وقت ہوئی جب ایران کے سپاہ پاسداران انقلاب اسلامی نے یوکرین کا ایک مسافر بردار طیارہ مار گرایا تھا جس پر سوار تمام 176 افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں