سمرقند (ڈیلی اردو/رائٹرز/وی او اے) روس کے صدر ولادی میر پوٹن نے جمعرات کو کہا ہےکہ پاکستان کو پائپ لائن کے ذریعے گیس کی ترسیل ممکن ہے اور اس کے لیے بنیادی ڈھانچے کا ایک حصہ پہلے سے موجود ہے۔
رائٹرز نے روس کی سرکاری خبررساں ایجنسی RIA کے حوالے سے خبر دی کہ پوٹن اور پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف نے جمعرات کو ازبکستان کے شہر سمرقند میں شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کے موقع پر الگ سے ملاقات کی۔
وزیر اعظم شہباز شریف کے دفتر سے جاری ہونے والے ایک بیان میں کہا گیا ہے کہ “وزیراعظم نے روس کے ساتھ مل کر کام کرنے کے پاکستان کےعزم کا اعادہ کیا تاکہ دونوں ملکوں کے درمیان خوراک کی سیکیورٹی، تجارت اور سرمایہ کاری، توانائی، دفاع اور سلامتی سمیت باہمی طور پر مفید تمام شعبوں میں تعاون کو مزید فروغ دیا جا سکے۔” بیان میں کہا گیا کہ دونوں فریقوں نے بین الحکومتی کمیشن یا آئی جی سی کا اگلا اجلاس جلد از جلد اسلام آباد میں بلانے پر اتفاق کیا۔
Prime Minister Muhammad Shehbaz Sharif meets Russian President H.E Vladimir Putin in Samarqand Uzbekistan. pic.twitter.com/ADptQjDKEh
— Prime Minister's Office (@PakPMO) September 15, 2022
گیس پائپ لائن کا طویل عرصے سے تاخیر کا شکار منصوبہ پاکستان کی معیشت کے لیے انتہائی اہم سمجھا جاتا ہے-
پاکستان اسٹریم گیس پروجیکٹ، جسے نارتھ ساؤتھ گیس پائپ لائن بھی کہا جاتا ہے، روسی کمپنیوں کے تعاون سے تعمیر کیا جائے گا۔
دونوں ممالک نے 2015 میں ایک 1,100 کلومیٹر (683 میل) طویل پائپ لائن تعمیر کرنے پر اتفاق کیا تھا۔ جو درآمد شدہ مائع قدرتی گیس یا ایل این جی کو، بحیرہ عرب کے ساحل پر کراچی سے شمال مشرقی صوبےہ پنجاب کے پاور پلانٹس تک پہنچائے گی۔
ڈیزائن کردہ پائپ لائن میں سالانہ 12.4 بلین کیوبک میٹر کی گنجائش ہے، جس میں 16 بلین کیوبک میٹر تک اضافہ ممکن ہے۔
ابتدائی طور پر یہ منصوبہ 2020 میں شروع ہونا تھا۔ لیکن یہ اس وقت تاخیر کا شکار ہوا جب روسی ابتدائی شراکت دار کو تبدیل کرنا پڑا، کیونکہ اسے مغربی پابندیوں کا سامنا کرنا پڑا تھا۔
رائٹرز کی رپورٹ کے مطابق پاکستانی وزیر اعظم شہباز شریف نے حالیہ ہفتوں میں کہا ہے کہ بہتر نرخوں کی صورت میں ان کی حکومت روسی گندم خریدنے میں بھی دلچسپی رکھتی ہے۔
شہباز شریف کے پیش رو عمران خان نے فروری میں اس دن ماسکو کا دورہ کیا تھا جس دن روس نے یوکرین پر حملہ کیا تھا۔
سابق وزیر اعظم عمران خان نے الزام لگایا تھا کہ اس دورے سے امریکہ ناراض ہوا تھااور انہوں نےبعد میں امریکہ کو ان کی حکومت کو گرانے کی سازش کے لیے بھی مورد الزام ٹھہرایا تھا۔
واشنگٹن نے بارہا ان الزامات کی تردید کی اور کہا کہ وہ پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہیں کرتا۔