نکوسیا (ڈیلی اردو/اے پی/ڈی پی اے/ اے ایف پی) قبرص نے ہتھیاروں کی فروخت پر مکمل پابندی ختم کرنے کے امریکی فیصلے کا خیر مقدم کیا ہے۔ دوسری جانب ترکی نے کہا ہے کہ امریکہ اس فیصلے پر نظرثانی کرے۔
امریکہ نے جمعے کے روز قبرص پر 35 برس قبل عائد کردہ پابندی مکمل طور پر ختم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ امریکی ہتھیاروں کی فراہمی روسی بحری جہازوں کی قبرص کی بندرگاہوں تک رسائی روکے جانے سے مشروط ہے۔
قبرص نے ہفتے کے روز امریکی ہتھیاروں کی پابندی مکمل طور پر اٹھائے جانے کو ایک سنگ میل قرار دیا ہے۔ قبرص کے مطابق یہ فیصلہ دونوں ممالک کے مابین تیزی سے فروغ پاتے تعلقات کی عکاسی کرتا ہے اور اس سے مشرقی بحیرہ روم کے خطے میں استحکام کو تقویت ملے گی۔
قبرس کے صدر نیکوس آناستاسیادیس نے ایک ٹویٹ کے ذریعے امریکی سینیٹ کی خارجہ تعلقات کمیٹی کے چیئرمین اور ڈیموکریٹ سیاست دان رابرٹ مینینڈز کا شکریہ ادا کیا جنہوں نے یہ پابندی ختم کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔
ترکی نے اس فیصلے کی مذمت کی ہے۔ ترک وزارت خارجہ نے امریکہ پر زور دیا کہ وہ اس فیصلے پر نظر ثانی کرے۔ انقرہ حکومت نے خبردار کیا ہے کہ اس اقدام سے قبرص امن معاہدے کو نقصان پہنچے گا، جزیرے پر ہتھیاروں کی دوڑ شروع ہو جائے گی اور علاقائی عدم استحکام پیدا ہو گا۔
امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان نیڈ پرائس نے ایک بیان میں کہا ہے کہ وزیر خارجہ انٹونی بلنکن اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ قبرص مالی سال 2023 کے لیے امریکہ کی ’دفاعی سامان کی درآمدات، دوبارہ برآمدات اور منتقلی کی اجازت دینے کی شرائط پر پورا اترتا‘ ہے۔
امریکہ سالانہ بنیادوں پر اس بات کا جائزہ لے گا کہ آیا قبرص پابندی اٹھائے جانے کی شرائط پر عمل پیرا ہے یا نہیں، جس میں منی لانڈرنگ کے خلاف ضوابط پر عمل درآمد اور روسی فوجی جہازوں کو ایندھن بھرنے اور سروسنگ کے لیے بندرگاہوں تک رسائی سے روکنا شامل ہے۔
قبرص نے یوکرین پر حملے کے بعد مارچ کے اوائل میں روسی جنگی جہازوں کو اپنی بندرگاہوں کے استعمال سے روک دیا تھا۔
یہ شرائط ’مشرقی بحیرہ روم کی سلامتی اور توانائی شراکت داری ایکٹ‘ میں درج ہیں جسے امریکی کانگریس نے سن 2019 میں منظور کیا تھا۔
اس ایکٹ میں حال ہی میں دریافت ہونے والے آف شور گیس کے ذخائر کے حوالے سے یونان، قبرص اور اسرائیل کے درمیان قریبی تعلقات کے لیے امریکی حمایت بھی شامل ہے۔
امریکہ نے یہ پابندی سن 1987 میں عائد کی تھی جس کا مقصد اس جزیرے کو ہتھیاروں کی ممکنہ دوڑ سے روکنا اور امن مذاکرات کو بچانا تھا۔ قبرص سن 1974 سے منقسم ہے جب یونان سے اتحاد کے لیے ہونے والی بغاوت کے بعد ترک فوجیں قبرص میں داخل ہو گئی تھی۔
امریکی ہتھیاروں تک رسائی پر پابندی کے بعد قبرص نے روس کی طرف رخ کیا اور ایم آئی 35 ہیلی کاپٹر، T-80 ٹینک اور Tor-M1 اینٹی ایئرکرافٹ میزائل سسٹم خریدے تھے۔