بنکاک (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) کئی برسوں سے جاری ناروا سلوک نے بالآخر درجنوں چینی مسیحیوں کو ملک چھوڑ کر دیار غیر میں پناہ لینے پر مجبور کر دیا۔ تاہم ان میں سے بعض کا کہنا ہے کہ چین چھوڑ دینے کے باوجود بھی انہیں بیجنگ کی طرف سے دھمکیاں مل رہی ہیں۔
چین میں کئی برسوں سے تکلیف دہ حالات میں رہنے اور جنوبی کوریا میں سیاسی پناہ نہ ملنے کے سبب 57 چینی مسیحی افراد کا ایک گروپ گزشتہ ماہ تھائی لینڈ پہنچا۔ ان کا مقصد اقوام متحدہ کی مہاجرین کی ایجنسی یو این ایچ سی آر کے ذریعے تھائی لینڈ میں سیاسی پناہ حاصل کرنا تھا۔
2019ء میں چین چھوڑ دینے کے باوجود چرچ کے ان ارکان کی طرف سے اپنی زندگی کو مشکلات میں گھری ہوئی اور مسلسل خطرات کا شکار قرار دیا گیا۔
یہ چرچ چینی شہر شینزن میں قائم کیا گیا تھا اور قیام کے بعد سے اسے مقامی حکام کی جانب سے مسلسل ہراساں کیے جانے کے تجربات سے گزرنا پڑا، کیونکہ ابیجنگ نے مذہبی برادریوں پر کنٹرول مزید بڑھا دیا ہے۔
اس چرچ کے ایک پاسٹر پان یونگوانگ کے مطابق، ”سال 2014ء کے بعد سے پولیس ہماری عبادت کی جگہ پر چھاپے مار چکی ہے، مجھے سوالات کے لیے بلا چکی ہے اور ہمارے کمپیوٹرز اور بائبل قبضے میں لے چکی ہے‘‘
پان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”2018ء میں میری طرف سے مذہبی معاملات سے متعلق قواعد پر ایک عوامی تنقیدی بیان پر دستخط کرنے کے بعد پولیس نے میرے مالک مکان پر دباؤ ڈالا کہ وہ مجھے نکال دے تاکہ میں کہیں قدم نہ جما سکوں۔‘‘
ان کا مزید کہنا تھا، ”چرچ مجبور ہوا کہ وہ اپنے مذہبی اجتماعات کے لیے جگہیں مسلسل تبدیل کرتا رہے۔ جب میں نے 2019ء میں ایک تربیت میں شرکت کے لیے تھائی لینڈ جانے کی کوشش کی تو مقامی پولیس نے میرے گھر سے نکلنے پر پابندی عائد کر دی جس کی وجہ سے میں روانہ نہ ہو سکا۔‘‘
مسیحیوں کے خلاف سختیاں
دسمبر 2018ء میں درجنوں مسیحیوں کی گرفتاری کے بعد پان اور ان کے چرچ کے دیگر ارکان نے چین چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا۔
پان کے مطابق، ”ہم جانتے تھے کہ چین میں مسیحی برادری کے لیے جگہ مزید تنگ ہو جائے گی اور حکام ہم پر دباؤ میں اضافہ کریں گے، ہم نے چین چھوڑنے اور جنوبی کوریا کے جزیرہ جیجو جانے کا فیصلہ کر لیا۔‘‘
سیاسی پناہ حاصل کرنے کے منصوبہ
پان اور چرچ کے دیگر ارکان دسمبر 2019ء میں جنوبی کوریا پہنچے، یہ چین کی طرف سے اپنی سرحدیں کووڈ انیس کے سبب بند کرنے سے کچھ ہی وقت قبل کی بات ہے۔
لیکن چینی حکومت نے انہیں ہراساں کرنے کا سلسلہ جاری رکھا۔ بعض چرچ ارکان اور ان کے چین میں موجود خاندانوں کے ارکان کو چین کی وزارت برائے ریاستی سکیورٹی کی طرف سے دھمکیاں ملیں۔
بیجنگ سے دھمکیاں ملنے کے باوجود ان چرچ ارکان کو امیگریشن سے متعلق وکلاء کی طرف سے بتایا گیا کہ انہیں جنوبی کوریا میں سیاسی پناہ ملنے کے امکانات بہت کم ہیں۔ اس نے انہیں جنوبی کوریا سے ہٹ کر کوئی اور محفوظ ملک جانے کے لیے سوچنے پر مجبور کر دیا۔
جنوبی کوریا کے سرکاری اعداد وشمار کے مطابق 2021ء میں سیاسی پناہ کے لیے درخواست دینے والوں میں سے محض ایک فیصد کو وہاں سیاسی پناہ دی گئی۔
چرچ کے پاسٹر پان یونگوانگ کے مطابق، ”جب ہمیں معلوم ہوا کہ جنوبی کوریا میں ہمیں پناہ نہیں مل سکے گی، ہم نے طے کیا کہ ہم تھائی لینڈ جائیں گے اور اقوام متحدہ کی مہاجرین سے متعلق ایجنسی کے ذریعے سیاسی پناہ حاصل کرنے کی کوشش کریں گے۔‘‘
تاہم تھائی لینڈ میں ان کے لیے دیگر ممکنہ خطرات موجود تھے۔ گزشتہ کئی برسوں کے دوران چین چھوڑ کر اس جنوب مشرقی ایشیائی ملک میں آنے والے بہت سے افراد کو چین واپس بھیج دیا گیا تھا حالانکہ وہ یو این ایچ سی آر کی طرف سے درخواستوں پر فیصلے کے انتظار میں تھے۔ اس چیز کے سبب چین سے آنے والے سیاسی پناہ کے متلاشیوں پر دباؤ بڑھ گیا۔
مسلسل پیچھا
گزشتہ ماہ تھائی لینڈ پہنچنے کے بعد سے ان چینی مسیحیوں نے کئی مرتبہ محسوس کیا کہ عجیب لوگ ان کا پیچھا کر رہے ہیں۔ پان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”جس دن ہم نے ہوٹل میں چیک ان کیا اس سے اگلے دن کچھ لوگوں نے ہماری تصویریں لینا اور ویڈیوز بنانا شروع کر دیں۔‘‘
تھائی لینڈ پہنچنے والے ان چینی مسیحیوں میں چَین بھی شامل ہیں جو اپنے دو بچوں کے ساتھ امریکا جانے کی خواہش مند ہیں کیونکہ وہاں مذہبی آزادی یقینی ہے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا، ”میں چاہتی ہوں کہ میرے بچے چرچ کے زیر انتظام چلنے والے اسکولوں میں جائیں اور میں چاہتی ہوں کہ انہیں مسیحیت کی تعلیم ملے۔‘‘
چین کے مطابق، ”مذہبی آزادی اور میرے بچوں کو تعلیم کی آزادی وہ وجوہات ہیں جن کی وجہ سے میں نے چین کو چھوڑا ہے۔‘‘