یہودی طالبان: مبینہ جنسی استحصال میں ملوث قدامت پسند یہودی فرقہ ’لیو طہور‘ کیا ہے؟

میکسیکو (ڈیلی اردو/بی بی سی/رائٹرز) میکسیکو کے ایک جنگل میں قائم یہودی فرقے لیو طہور کے مرکز پر پولیس کارروائی کے دوران کئی بچوں کو بازیاب کروائے جانے کے بعد اس انتہائی قدامت پسند فرقے کے بارے میں ایک بار پھر سنگین سوالات نے جنم لیا ہے۔

اس یہودی فرقے کے ارکان کو ’یہودی طالبان‘ کہا جاتا ہے کیونکہ ان کی عورتیں سر سے پاؤں تک کالے کپڑے پہنتی ہیں۔

تاہم میکسیکو اور گوئٹے مالا جیسے لاطینی امریکی ممالک میں قائم ہونے والے اس مذہبی گروہ کے بارے میں تنازع ان کے انتہائی قدامت پسند لباس سے کہیں بڑھ کر ہے۔

میکسیکو میں ایک وفاقی جج نے ڈپٹی اٹارنی جنرل کے دفتر کی جانب سے بچوں سے زیادتی میں ملوث ہونے کے شبے میں منظم جرائم میں کی جانے والی تحقیقات کے بعد اس فرقے کے کئی رہنماؤں کی گرفتاری کا حکم دیا ہے۔

اس فرقے کا مرکز تاپاچولا شہر سے 17 کلومیٹر شمال میں واقع ہے۔

بی بی سی کے صحافی رافی برگ سنہ 2018 میں دو نابالغ بچوں کے اغوا کے ایک مقدمے کو یاد کرتے ہوئے بتاتے ہیں کہ ان بچوں کو ان کی ماں گوئٹے مالا میں آباد اس فرقے کے چنگل سے آزاد کروا کر نیویارک لے گئی تھیں۔

اس واقعے میں ملوث گروہ کے نو ارکان کے خلاف مقدمہ قائم کیا گیا۔ اُن میں سے چار کو سزائیں ہو چکی ہیں جن میں فرقے کے بانی نکمین ہیلبرانز کا بیٹا بھی شامل ہے۔

ان دو کم سن بچوں کو امریکہ سے اغوا کیا گیا تھا اور جنوری 2019 میں انھیں بازیاب کروایا جا سکا تھا۔ نکمین ہیلبرانز بچوں کی ماں کا بھائی یعنی بچوں کا ماموں ہے۔

اس وقت بی بی سی منڈو کو گوئٹے مالا میں اس فرقے تک خصوصی رسائی حاصل ہوئی تھی اور اس کے ایک رکن نے پہلی بار اس اور دیگر مقدمات کے بارے میں بات کی جن میں وہ ملوث رہے ہیں، اور الزام لگایا تھا کہ لیو طہور کو ’اس کے نظریات کی وجہ سے سیاسی ظلم و ستم کا سامنا ہے۔‘

وسطی امریکی ملک کے جنوب مشرق میں واقع سانتا روزا میں رہنے والے اس فرقے کے 350 افراد کی جانب سے گوئٹے مالا کے ڈاکٹر اوبادیا گزمین کا کہنا ہے کہ ’فرقے پر اغوا کا الزام لگایا گیا ہے، لیکن یہ کبھی بھی ثابت نہیں ہوا۔‘

تاہم جیسا کہ بی بی سی منڈو کی صحافی اینا گیبریلا روزجاس نے اشارہ کیا ہے کہ اسرائیل میں 1980 کی دہائی میں اس فرقے کے قیام کے بعد سے یہ اتتہائی راسخ العقیدہ یہودی فرقہ امریکہ، کینیڈا، میکسیکو اور گوئٹے مالا میں موجود رہا ہے اور ان ممالک میں بچوں کے جنسی استحصال، کم عمری کی شادیاں اور اغوا جیسے واقعات سامنے آتے رہے ہیں۔

انتہائی راسخ العقیدہ اور صہیونی مخالف

عبرانی زبان میں لیو طہور ’پاک دل‘ کو کہتے ہیں، اور اس فرقے کی بنیاد سنہ 1980 میں یروشلم میں راہب شلومو ہلبرانس نے رکھی تھی۔ ایک اندازے کے مطابق اس کے 250 سے 500 ارکان ہیں۔

یہ فرقے یہودیت کے ایک صوفیانہ سلسلے کی پیروی کرتا ہے اور یہ فرقہ اپنے ماننے والوں پر کڑی مذہبی پابندیاں عائد کرتا ہے۔

اس فرقے کی خواتین ہمیشہ سر سے پاؤں تک کالا لباس پہنتی ہیں اور کبھی اپنا چہرہ نہیں دکھاتیں جبکہ اس فرقے کے مرد بھی ہمیشہ کالے رنگ کا لباس، سروں پر کالی ٹوپیاں پہنتے ہیں اور کبھی اپنی داڑھی نہیں مونڈتے۔

ان کی خوراک ایسی غذا پر مبنی ہے جو بائبل کے اصولوں کے مطابق حلال یا جائز ہیں جنھیں یہودیت کے ماننے والے کھا سکتے ہیں۔

تاہم یہ خوراک کے معاملے میں بھی انتہائی سخت ہیں اور زیادہ تر ان کا کھانا گھر کا پکا ہوتا ہے اور اس میں قدرتی اور خالص اجزا شامل ہوتے ہیں۔

وہ مرغی کا گوشت یا انڈا نہیں کھاتے کیونکہ ان کے خیال میں اس میں جنیاتی طور پر ردو بدل کیا گیا ہے۔ اس کے جگہ وہ بطخ اور اس کے انڈے کھاتے ہیں۔ وہ چاول، ہرا ہیاز اور پتوں والی سبزیاں بھی کیڑوں کے ڈر سے نہیں کھاتے۔

دیگر پھلوں اور سبزیوں کو استعمال کرتے وقت وہ ہمیشہ کھانے سے پہلے اس کا چھلکا اتار دیتے ہیں حتی کہ ٹماٹر کا چھلکا بھی اتار کر استعمال کرتے ہیں۔

مشروبات میں وہ صرف گائے کا دودھ پیتے ہیں وہ بھی اس گائے کا جس کا دودھ وہ خود دھو سکتے ہیں اور وہ اپنی شراب بھی خود کشید کرتے ہیں۔

ان کے بچے دکانوں سے ملنے والی ٹافیاں نہیں کھا سکتے البتہ وہ گھر کی بنی ہوئی مٹھایاں یا چاکلیٹ، پھل یا میوے کھا سکتے ہیں۔ وہ ٹیکنالوجی کا انتہائی کم استعمال کرتے ہیں اور وہ ٹی وی اور کمپیوٹر سمیت برقی آلات کے استعمال سے اجتناب کرتے ہیں۔

دوسری طرف وہ یہودی فرقہ ہونے کے باوجود ان کے سیاسی نظریات صہیونیوں سے مختلف ہیں اور انھیں یہ خطرہ ہے کہ اسرائیل میں یہودی مذہب کی جگہ ایک سیکولر قومیت اختیار کرے گی۔

اپنی انتہائی سخت عقائد اور موقف کے باوجود، اس فرقے کے ارکان کا ماننا ہے کہ وہ مکمل طور پر یہودی مذہبی روایات اور اصولوں کی حدود میں رہتے ہوئے کام کرتے ہیں اور درحقیقت اُن کے کاموں میں کوئی نئی یا مختلف چیز نہیں ہے۔

اسرائیل اخبار ’ہیریٹز‘ کے صحافی شایے فوگلمین جنھیں سنہ 2012 میں لیو طہور فرقے کے ارکان کے ساتھ پانچ دن گزارنے کا نادر موقع ملا تھا، نے لکھا تھا کہ ’وہ اپنے بارے میں سمجھتے ہیں کہ وہ ہی حق کے راستے پر ہیں، وہ ہی مقدس دیواروں کے محافظ اور یہودی دنیا میں باقی بچنے والی آخری شمع کا دفاع کرنے والے ہیں۔ انھیں یہودی عقیدے ہاثیدازم کے دیگر فرقوں سے شدید اختلاف ہے اور انھیں وہ قابل نفرت قرار دیتے ہیں۔‘

‘لیو طہور فرقے کے ارکان کے بنیادی مطالبات بہت سادہ سے ہیں۔ پورے دل سے ہر وقت خدا کی عبادت اور خدمت کرنا۔ ان کی لائبریریوں میں صرف یہودی مذہب سے متعلق کتابیں موجود ہیں۔ ان کے گھروں میں نہ تو ٹیلی ویژن ہیں، نہ ریڈیو اور نہ ہی کمپیوٹرز۔ ان کے لیے فارغ وقت گزارنے، اپنے سوچ کا دائرہ وسیع کرنے یا اپنے آپ کو بہتر بنانے جیسے مغربی خیالات کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔’

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’ان کے گھروں کی دیواروں پر کچھ بھی آویزاں نہیں ہوتا، نہ کوئی تصاویر، تعویذ یا راہبوں کی تصاویر۔ متعدد مرتبہ سجاوٹ کی اشیا میں موم بتی سٹینڈ یا چاندی کی مذہبی اہمیت کی اشیا موجود ہوتی ہیں جو شیشے کے ڈبے میں رکھی جاتی ہیں۔

ایسی تفصیلات جن سے اس فرقے کا مذہب سے لگاؤ عیاں ہوتا ہے وہیں گذشتہ برسوں کے دوران ایسے الزامات بھی سامنے آئے ہیں جن میں یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ اس برادری کی جانب سے اپنے اراکین پر پُرتشدد اور شدت پسند اقدامات کا استعمال بھی دیکھنے کو ملتا ہے۔ ان میں بچوں پر تشدد اور کم عمر لڑکیوں کی عمر رسیدہ مردوں سے زبردستی شادیاں کروانا بھی شامل ہیں۔

یہ الزامات اس فرقے کے سابقہ اراکین اور ان کے خاندانوں کی جانب سے عائد کیے گئے ہیں۔

اوبادیا گزمان نے بی بی سی منڈو کو بتایا کہ ’اس برادری پر کم عمر بچوں کے درمیان شادیوں کو فروغ دینے بھی شامل ہے۔ لیکن ہم نے ایسا کبھی نہیں کیا۔ یہ ایک ذاتی معاملہ ہے۔ اگر کسی کو ایسا لگتا ہے کہ وہ نئی زندگی کا آغاز کرنے کے لیے تیار اور ہے اور مذہبی عقائد کے مطابق گزارنے کے قابل بھی ہے تو یہ اس کا اپنا ذاتی فیصلہ ہے۔ شادی کرنے کے حق سے کسی کو نہیں روکا جا سکتا۔‘

تنازع اور بے دخلی

سنہ 1990 میں راہب شلومو ہیلبرانز نے اس گروہ کو امریکہ منتقل کر دیا جہاں انھوں نے بروکلن میں ایک یہودی سکول قائم کیا۔

کچھ برس بعد لیو طہور کو قانون سے پہلی مرتبہ مشکلات کا سامنا ہونے لگا۔

سنہ 1993 میں ہیلبرانز کو نیویارک میں ایک کم عمر لڑکے کو اغوا کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا جو ان سے تعلیم حاصل کر رہے تھے اور دائرہ مذہب میں داخل ہونے کی تقریب کے لیے تیاری کر رہے تھے۔

بچے کے والدین نے ہیلبرانز پر الزام عائد کیا کہ انھوں نے لڑکے کو ’برین واش‘ کیا جب راحب نے ان پر بچے کو تشدد کا نشانہ بنانے الزام لگایا۔

آخر میں عدالت نے ہیلبرانز کو اغوا کرنے کے الزام میں سزا سنائی اور انھوں نے دو سال جیل میں گزارے، اور پھر سنہ 1996 میں انھیں پیرول پر رہا کیا گیا۔

سنہ 2000 میں راحب کو اسرائیل منتقل کر دیا گیا تھا جہاں وہ زیادہ عرصہ نہیں رکے بلکہ جلد ہی اپنی برادری کے ساتھ کیوبیک، کینیڈا چلے گئے۔

یہ فرقہ پھر سینٹ اگاتھ منتقل ہو گیا۔ سینٹ اگاتھ دراصل 10 ہزار رہائشیوں پر مشتمل چھوٹا سا قصبہ ہے جو مونٹریال سے دو گھنٹوں کی مسافت پر واقع ہے۔

تاہم وہاں بھی گروہ کے خلاف نئے اعتراضات سامنے آئے جس پر سنہ 2013 میں سوشل سروسز کی جانب سے بچوں کو نظر انداز کرنے کا الزام عائد کیا گیا تھا۔

مقامی میڈیا کے مطابق کینڈین حکام کو بچوں کے حفظانِ صحت اور صحت کے بارے میں خدشات تھے۔ اس کے علاوہ ان کی تعلیم کے بارے میں بھی کیونکہ ان بچوں کو گھروں میں تعلیم دی جا رہی تھی اور انھیں ریاضی کے حوالے سے بنیادی مہارت حاصل نہیں ہو رہی تھی۔

اس کے کچھ عرصے بعد فرقے کے کچھ اراکین نے ملک چھوڑ کر مائنز کے قصبے گواٹیمالا میں رہائش پذیر ہونے کا اہتمام کیا۔

یہاں بھی انھیں مشکلات کا سامنا کرنا پڑا اور انھیں چند ماہ کی غلط فہمیوں کے بعد قصبے کے بڑوں کی ایک کونسل نے اس گروپ کو نکالنے کا فیصلہ کیا کیونکہ اس کے اراکین نے مقامی افراد کے ساتھ گھومنے پھرنے اور ان سے بات کرنے سے بھی انکار کر دیا تھا۔

خبررساں ادارے روئٹرز سے بات کرتے ہویے کونسل کے رکن مگویل واسکیز چولٹویو نے کہا کہ ‘ہمیں گلیوں میں چلتے پھرتے وقت ان سے خوف آتا ہے۔ ہم سمجھتے ہیں کہ وہ ہمارا مذہب اور طور اطوار تبدیل کرنا چاہتے ہیں۔‘

ان کی بے دخلی کے بعد مقامی حکام نے انھیں ایک مخصوص وقت دیا اور یہ دھمکی بھی دی کہ اگر وہ فوری طور پر نہ گئے تو ان کی عوامی سروسز تک رسائی کاٹ دی جائے گی۔

اس فرقے کی جانب سے گوئٹے مالا شہر منتقل ہونے کا فیصلہ کیا گیا جہاں اس کے ہیڈکوارٹر پر بعد میں سرکاری وکلا کی جانب سے چھاپا مارا گیا تھا جو یہ تفتیش کر رہے تھے کہ آیا وہاں پر بچوں کے ساتھ تشدد و ہراسانی کے کیسز موجود ہیں یا نہیں۔

سنہ 2016 میں انھوں نے ایل اماتیلو نامی قصبے میں منتقل ہونے کا فیصلہ کیا جو گواٹیمالا شہر سے 80 کلومیٹر دور ہے۔

ایک سال بعد اسرائیلی میڈیا نے ہیلبرانز کی موت کی خبر شائع کی، جو مبینہ طور پر میکسیکو کے ایک دریائے پر مذہبی فریضہ ادا کرتے ہوئے پیش آئی۔ اس موقع پر اس فرقے کی جانب سے ایک اور ملک میں منتقل ہونے کے مبینہ منصوبے کے بارے میں بھی پتا چلا۔

تاہم اس فرقے کو قائم کرنے والے ہیلبرانز کی موت اور ان کے نئے سربراہ کو بچوں کو اغوا کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا ہے اس لیے لیو طہور کا مستقبل مزید تاریک دکھائی دے رہا ہے۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں