واشنگٹن (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/رائٹرز/اے ایف پی/اے پی) امریکہ کے صدر جو بائیڈن نے خبردار کیا ہے کہ اوپیک کی جانب سے تیل کی پیداوار میں کٹوتی کرنے کی صورت میں سعودی عرب کو نتائج بھگتنے پڑیں گے۔ بائیڈن نے تاہم ریاض کے خلاف اپنے ممکنہ اقدامات کی وضاحت نہیں کی۔
امریکہ کے اعتراضات کے باوجود تیل پیدا کرنے والے ملکوں کی تنظیم اوپیک کی جانب سے گزشتہ ہفتے تیل کی پیداوار میں کٹوتی کے اعلان کے پس منظر میں امریکی صدر جو بائیڈن نے منگل کے روز کہا کہ اس فیصلے کے سعودی عرب کے ساتھ امریکی تعلقات پر سنگین مضمرات ہوں گے۔
امریکی صدر نے نیوز چینل سی این این کو دیے گئے انٹرویو میں گوکہ یہ تو نہیں بتایا کہ سعودی عرب کے خلاف وہ کن متبادل پر غور کر رہے ہیں تاہم کہا کہ یہ طے ہے کہ اس کے نتائج ضرور ہوں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ ان کے خیال میں امریکہ کے لیے سعودی عرب کے ساتھ اپنے تعلقات پر ازسرنو نظر ثانی کرنے کا وقت آ گیا ہے۔
جو بائیڈن کے اس بیان سے ایک ہی روز قبل سینیٹ کی خارجہ کمیٹی کے چیئرمین ڈیموکریٹ رہنما بوب میننڈیز نے کہا تھا کہ امریکہ کو سعودی عرب کو ہتھیاروں کی فروخت سمیت اپنے تمام تعاون فوری طور پر منجمد کر دینے چاہئیں۔
تاہم بائیڈن انتظامیہ کے سینیئر عہدیداروں کا خیال ہے کہ سعودی عرب کے خلاف کسی طرح کا جوابی منصوبہ امریکہ کو درپیش پیچیدہ صورت حال کے مدنظر نومبر میں ہونے والے وسط مدتی انتخابات سے پہلے ممکن نہیں ہے۔ اور واشنگٹن کو اپنے دیرینہ شراکت دار کے ساتھ رشتوں میں تلخی پیدا کرنے سے قبل سوچنا پڑے گا۔
وائٹ ہاؤس کی پریس سکریٹری کیرین ژاں پیئر کا کہنا تھا کہ پالیسی پر نظر ثانی کی جائے گی تاہم انہوں نے اس کے لیے وقت اور طریقہ کار کے بارے میں بتانے سے انکار کردیا کہ یہ نظر ثانی کس طرح کی جائے گی۔ انہوں نے کہا کہ امریکہ “آنے والے ہفتوں اور مہینوں پر باریکی سے نگاہ رکھے گا۔”
بائیڈن آخر ناراض کیوں ہو گئے؟
صدر بائیڈن کے بیان سے قبل امریکی قومی سلامتی کونسل کے ترجمان جان کربی نے اوپیک کی جانب سے تیل کی پیداوار میں یومیہ دو ملین بیرل کی کٹوتی کرنے کے فیصلے کو “تنگ نظری” قرار دیتے ہوئے کہا، “اس سے روس کو فائدہ ہوگا جب کہ اس وقت کوئی بھی شخص نہیں چاہتا کہ ولادیمیر پوٹن کو کسی طرح کا فائدہ پہنچے۔” خیال رہے کہ روس اوپیک پلس کا رہنما ہے۔
خبروں کے مطابق اوپیک اور اس کے اتحادیوں نے دو ملین بیریل روزانہ کی بنیاد پر تیل کی پیداوار میں کٹوتی کرنے کا پچھلے ہفتے اعلان کیا تھا۔ تجزیہ کاروں کے مطابق موسم سرما کے آغاز پر اس اقدام سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں ہوشربا اضافے کا خدشہ ہے۔
جان کربی کا کہنا تھا کہ امریکی صدر جو بائیڈن اوپیک کے فیصلے سے مایوس ہوئے ہیں اور وہ کانگریس کے ساتھ مل کر سعودی عرب سے تعلقات کے حوالے سے غورو فکر کرنے پر تیار ہیں کہ یہ تعلقات کیسے ہونے چاہئیں۔
یہ امریکہ کے مفاد کا معاملہ ہے
سفارتی ذرائع کے مطابق وائٹ ہاؤس نے اوپیک ممالک پر تیل کی پیداوار میں کمی کے فیصلے کو روکنے کے لیے بہت دباؤ ڈالا تھا۔
جان کربی نے سی این این کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا، “میرا خیال ہے کہ صدر واضح طور پر سمجھتے ہیں کہ اس طرح کے تعلقات کا دوبارہ جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔” انہوں نے کہا کہ اوپیک کے فیصلے کی روشنی میں میرا خیال ہے کہ وہ ایسا کرنا چاہیں گے۔
جان کربی کا مزید کہنا تھا، “میرا خیال ہے کہ وہ فوراً ہی اس حوالے سے تبادلہ خیال کرنے کے لیے تیار ہیں، میں نہیں سمجھتا کہ یہ ایسا ہے کہ اس کے بارے میں انتظار کیا جائے۔ کیونکہ یہ مسئلہ صرف یوکرین میں جنگ کے حوالے سے تحفظات کا نہیں بلکہ یہ امریکہ کی قومی سلامتی کے مفاد کا معاملہ بھی ہے۔”
سعودی عرب کا موقف
خیال رہے کہ امریکی صدر جو بائیڈن نے تین ماہ قبل سعودی عرب کا دورہ کیا تھا اور انہوں نے ملک کے عملاً حکمراں ولی عہد محمد بن سلمان سے بھی ملاقات کی تھی۔ حالانکہ سعودی نژاد امریکی صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے واقعے کے بعد انہوں محمد بن سلمان کی سخت مخالفت کی تھی۔
امریکہ سمجھتا ہے کہ خاشقجی کا قتل محمد بن سلمان کے حکم پر کیا گیا تھا حالانکہ سعودی عرب اس الزام کی تردید کرتا ہے۔
سعودی عرب نے امریکہ کے ساتھ تازہ ترین کشیدگی کو کم کرنے کی کوشش کی ہے۔
سعودی عرب کے وزیر خارجہ شہزادہ فیصل بن فرحان نے کہا کہ ان کا ملک اور امریکہ کے درمیان “اسٹریٹیجک پارٹنرشپ” ہے اور اوپیک کا فیصلہ کلی طور پر اقتصادی بنیادوں پر لیا گیا ہے۔
سعودی وزیر خارجہ نے ‘العربیہ’ کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا،”ریاض اور واشنگٹن کے درمیان فوجی تعاون سے دونوں ملکوں کا مفاد پورا ہو رہا ہے اور اس سے خطے میں استحکام پیدا کرنے میں مدد ملی ہے۔”