ڈھاکا (ڈیلی اردو/اے ایف پی/اے پی/ڈی پی اے) پولیس کے مطابق روہنگیاؤں کے ایک گروپ نے بنگلہ دیش میں دو روہنگیا پناہ گزین کیمپوں کے رہنماوں پر حملہ کر دیا۔ بعض ذرائع کا کہنا ہے کہ میانمار میں فوجی جنتا سے جنگ کرنے والے ایک باغی گروپ کا ان ہلاکتوں سے تعلق ہو سکتا ہے۔
Head Mazee Anowar from camp-13, block-F was gun shot today at around 6:00 pm by a unknown Rohingya group. Community leaders in camps systematically targeted and being killed continuously. Criminals group in camps must identified and bring them in-front to law to punish. pic.twitter.com/eWDAGszKr0
— Aung Kyaw Moe (@akmoe2) October 16, 2022
بنگلہ دیش پولیس نے اتوار کے روز بتایا کہ دو روہنگیا رہنما ایک ہجوم کے ہاتھوں ہلاک کر دیے گئے۔ بنگلہ دیش میں روہنگیا پناہ گزینوں کے کیمپوں میں سکیورٹی کی مجموعی صورت حال مسلسل زیادہ خطرناک ہوتی جارہی ہے۔ ان کیمپوں میں تقریباً 10 لاکھ پناہ گزین مقیم ہیں۔
پولیس کے ایک ترجمان فاروق احمد نے بتایا کہ یہ دونوں رہنما ہفتے کے روز دیر رات کیمپ نمبر 13 میں مارے گئے۔ انہوں نے ان حملوں کو حالیہ مہینوں کے بدترین حملوں میں سے ایک قرار دیا۔
Two camp in charge of Rohingya refugee in Bangladesh were killed by unknown Arm group.
AEN, 16 Oct 2022 https://t.co/jW62NZ9Got pic.twitter.com/vZk6OmT6Et
— The Arakan Express News (@arakan_express) October 16, 2022
پولیس ترجمان کا کہنا تھا، “ایک درجن سے زائد روہنگیا شرپسندوں نے 38 سالہ مولوی محمد یونس کو ہلاک کر دیا، جو کیمپ نمبر13 کے مجموعی نگراں تھے۔ شرپسندوں نے ایک اور رہنما 38 سالہ محمد انور کو بھی مار ڈالا۔ مولوی یونس کی موقع پر ہی موت ہوگئی جب کہ انور نے ہسپتال میں دم توڑ دیا۔”
روزنامہ ڈھاکہ ٹریبیون نے اطلاع دی ہے کہ ان حملوں کے بعد جائے وقوعہ پر قانون نافذ کرنے والے اہلکاربڑی تعداد میں تعینات کر دیے گئے ہیں۔ تشدد میں ملوث ہونے کے الزام میں ابھی تک کسی کو حراست میں نہیں لیا گیا ہے اور نہ ہی کسی پر فرد جرم عائد کی گئی ہے۔
حملے کا ذمہ دار کون ہے؟
بنگلہ دیش پولیس کی ایلیٹ یونٹ کے ایک سینیئر عہدیدار نے فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ میانمار میں فوج کے خلاف لڑنے والے ایک باغی گروپ اراکان روہنگیا سالویشن آرمی (اے آر ایس اے) کے ان حملوں میں ملوث ہونے کا امکان ہے۔
انہوں نے کہا،”میانمار میں داخلی تصادم سے بنگلہ دیش کے پناہ گزین کمیپوں میں بھی سکیورٹی کی صورت حال متاثر ہو رہی ہے۔”
روہنگیا رہنماوں اور مقتول میں سے ایک کے بھانجے نے بھی اس بات سے اتفاق کیا اور اے آر ایس اے کو اس کے لیے مورد الزام ٹھہرایا۔
خیال رہے کہ امریکہ کے وائٹ ہاوس کا دورہ کرنے والے روہنگیا رہنما محب اللہ کو گزشتہ ستمبر میں قتل کر دیا گیا تھا اور ان کے قتل کے لیے مذکورہ گروپ کے کئی افراد پر الزامات عائد کیے گئے تھے۔ محب اللہ کے قتل کے بعد اے آر ایس اے کے خلاف کارروائیوں کا سلسلہ شروع ہوا اور اس کے 8000 اراکین گرفتار کیے جاچکے ہیں۔
تشدد کے واقعات میں اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟
مختلف گروہوں کے درمیان یابا میتھا میفٹامائن نامی ایک نشہ آور دوا کی غیر قانونی تجارت پر کنٹرول حاصل کرنے کے لیے لڑائی تیز ہوگئی ہے۔ یہ نشہ آور گولی میتھامیفٹامائن اور کیفین کو غیر قانونی طریقے سے ملا کر تیار کی جاتی ہے۔
بنگلہ دیشی حکام کا بھی کہنا ہے کہ حالیہ مہینوں میں انہوں نے تشدد کے واقعات میں اضافہ دیکھا ہے۔
تشدد کے ان واقعات کے دوران پناہ گزینوں کے سویلین رہنماوں کو خاص طورپر نشانہ بنایا جاتا ہے، بعض رہنماوں کو اغوا کرلیا گیا ہے اور کچھ دیگر کو قتل بھی کر دیا گیا ہے۔
روہنگیا کون ہیں؟
بنگلہ دیش کے ہمسایہ ملک میانمار کی فوج نے سن 2017 میں روہنگیا برادری کو نشانہ بنانا شروع کیا، ان میں اکثریت مسلمانوں کی ہے۔ اقوام متحدہ میانمار فوج کی جانب سے کی جانے والی کارروائیوں کی تحقیقات کر رہی ہے اور یہ پتہ لگا رہی ہے کہ آیا یہ نسل کشی کا معاملہ تو نہیں ہے۔
میانمار فوج کی کارروائیوں کے نتیجے میں لاکھوں افراد اپنا گھربار چھوڑ کر بنگلہ دیش بھاگ گئے، جہاں انہیں میانمار کی سرحد کے قریب کاکس بازار میں واقع کیمپوں میں رکھا گیا ہے۔