اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) الیکشن کمیشن آف پاکستان نے توشہ خانہ ریفرنس میں سابق وزیر اعظم عمران خان کو الزامات ثابت ہونے پر قومی اسمبلی کی رکنیت سے نااہل قرار دے دیا ہے۔ توشہ خانہ ریفرنس میں فیصلہ 19 ستمبر کو محفوظ کیا گیا تھا۔
الیکشن کمیشن آف پاکستان کے پانچ رکنی بینچ نے یہ متفقہ فیصلہ جمعہ کی دوپہر سنایا ہے۔ مختصر فیصلے میں کہا گیا ہے کہ عمران خان کرپٹ پریکسٹس کے مرتکب ہوئے ہیں اس لیے انھیں آئین کے آرٹیکل 63 پی کے تحت نااہل قرار دیا جاتا ہے۔
مختصر فیصلے میں عمران خان کے خلاف قانونی کارروائی کا آغاز کرنے کا حکم بھی دیا گیا ہے۔
اس حوالے سے الیکشن کمیشن نے عمران خان سمیت تمام فریقین کو نوٹس جاری کر رکھے تھے۔ آئینی طور پر الیکشن کمیشن اس ریفرنس پر چار نومبر سے پہلے فیصلہ سنانے کا پابند تھا۔
پی ٹی آئی کی حکومت کے خاتمے کے بعد اتحادی حکومت کے ارکان قومی اسمبلی کی درخواست پر سپیکر قومی اسمبلی راجہ پرویز اشرف نے چار اگست کو الیکشن کمیشن کو آئین کے آرٹیکل 63 (ٹو) کے تحت ریفرنس بھیجا تھا جس میں آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت عمران خان کی نااہلی کی سزا کی استدعا کی گئی تھی۔
مسلم لیگ ن کے رکن قومی اسمبلی بیرسٹر محسن نواز رانجھا نے عمران خان کے خلاف سپیکر قومی اسمبلی کے پاس آئین کے آرٹیکل 63 (ٹو) کے تحت ریفرنس دائر کیا تھا، جس میں کہا گیا تھا کہ عمران خان نے سرکاری توشہ خانہ سے تحائف خریدے مگر الیکشن کمیشن میں جمع کرائے گئے اثاثہ جات کے گوشواروں میں انھیں ظاہر نہیں کیا، اس طرح وہ ’بددیانت‘ ہیں، لہٰذا انھیں آئین کے آرٹیکل 62 ون (ایف) کے تحت نااہل قرار دیا جائے۔
پی ٹی آئی کے قائدین کی جانب سے ان الزامات کی تردید کی جاتی رہی ہے۔
آخری سماعت کے موقع پر کیا دلائل دیے گئے؟
الیکشن کمیشن میں توشہ خانہ ریفرنس کی گذشتہ سماعت کے دوران عمران خان کے وکیل بیرسٹر علی ظفر نے دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ ’الیکشن کمیشن عدالت نہیں بلکہ کمیشن ہے، جب تک ہائی کورٹ کی نگرانی نہ ہو کوئی ادارہ عدالت نہیں بن جاتا۔‘
یرسٹر علی ظفر نے یہ بھی کہا تھا کہ ’ایسا نہیں ہو سکتا کہ دس برس پرانی چیز اٹھا کر سوال کر دیا جائے۔ یہ ایک سیاسی کیس ہے اور اپوزیشن اس پر پریس کانفرنسز بھی کر رہی ہے۔‘
جواب میں پاکستان مسلم لیگ نون کے وکیل بیرسٹر خالد اسحاق نے دلائل دیتے ہوئے کہا تھا کہ ریفرنس میں صرف ایک سوال کیا گیا لیکن عمران خان کی جانب سے جمع کروایا گیا جواب اس سوال کے مطابق نہیں۔
’عمران خان نے توشہ خانہ سے وصول تحائف اثاثوں میں ظاہر نہیں کیے۔ عمران خان نے تسلیم کیا کہ انھوں نے توشہ خانہ کے تحائف اپنے پاس رکھے۔ سوال یہ ہے کہ عمران خان نے درست وقت میں ان تحائف کو ظاہر نہیں کیا۔‘
یہ ریفرنس رواں برس اگست کے مہینے میں الیکشن کمیشن پہنچا تھا جس کے بعد الیکشن کمیشن آف پاکستان نے اسے پہلی مرتبہ 18 اگست کو سماعت کے لیے مقرر کیا تھا۔
اب تک اس ریفرنس میں الیکشن کمیشن میں پانچ سماعتیں ہو چکی ہیں۔ اس ریفرنس کی وجہ سے عمران خان کے سر پر بھی آئین کے آرٹیکل 62 ون ایف کے تحت نااہلی کی تلوار لٹک رہی ہے جس کے تحت سابق وزیراعظم نواز شریف عمر بھر کے لیے پارلیمانی سیاست سے عدالتی فیصلے کے نتیجے میں بے دخل کر دیے گئے تھے۔
توشہ خانہ سکینڈل طویل عرصے سے خبروں میں ہے جس کی وجہ یہ الزام ہے کہ عمران خان اور ان کی اہلیہ سابق خاتون اول بشریٰ بی بی نے توشہ خانے سے سستے داموں میں تحائف خریدنے کے بعد انھیں بیچ دیا تھا۔
یہاں یہ بات اہم ہے کہ توشہ خانہ سے تحائف خریدے جاتے ہیں اور انھیں مکمل قانونی تحفظ حاصل ہے تاہم بعض حلقے یہ ضرور سمجھتے ہیں کہ اخلاقی طور پر تحفہ بیچنا غلط ہے۔ البتہ عمران خان اس بارے میں کہہ چکے ہیں کہ ’میرا تحفہ، میری مرضی۔‘
عمران خان کا تحریری جواب
عمران خان نے سات ستمبر کو توشہ خانہ ریفرنس میں الیکشن کمیشن میں اپنا تحریری جواب جمع کرایا تھا۔ عمران خان کے جواب کے مطابق یکم اگست 2018 سے 31 دسمبر 2021 کے دوران انھیں اور ان کی اہلیہ کو 58 تحائف دیے گئے۔
جواب میں یہ بھی بتایا گیا کہ یہ تحائف زیادہ تر پھولوں کے گلدان، میز پوش، آرائشی سامان، قالین، بٹوے، پرفیوم، تسبیح، خطاطی، فریم اور پین ہولڈرز پر مشتمل تھے البتہ ان میں گھڑی، قلم، کفلنگز، انگوٹھی، بریسلیٹ/لاکٹس بھی شامل تھے۔
عمران خان کے تحریری جواب میں یہ بھی بتایا گیا کہ ان سب تحائف میں صرف 14 چیزیں ایسی تھیں جن کی مالیت 30 ہزار روپے سے زائد تھی جسے انھوں نے باقاعدہ طریقہ کار کے تحت رقم کی ادائیگی کر بعد خریدا۔
اپنے جواب میں عمران خان نے اعتراف کیا تھا کہ انھوں نے بطور وزیر اعظم اپنے دور میں چار تحائف فروخت کیے تھے۔ سابق وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ انھوں نے دو کروڑ 16 لاکھ روپے کی ادائیگی کے بعد سرکاری خزانے سے حاصل کردہ تحائف کی فروخت سے تقریباً پانچ کروڑ 80 لاکھ روپے حاصل کیے۔
ان تحائف میں ایک گھڑی، کفلنگز، ایک قلم اور ایک انگوٹھی شامل تھی جبکہ دیگر تحائف میں چار رولیکس گھڑیاں بھی شامل تھیں۔
توشہ خانہ ریفرنس میں کیا تھا؟
بی بی سی کے پاس موجود اس ریفرنس کی کاپی کے مطابق درخواست گزار نے کہا ہے کہ عمران خان پر قانونی طور پر لازم تھا کہ وہ ہر مالی سال کے آخر میں اپنے، اپنی اہلیہ اور زیر کفالت افراد کے تمام تر اثاثے، چھپائے بغیر الیکشن کمیشن آف پاکستان میں جمع کرواتے۔
دستاویز میں یہ الزام بھی لگایا گیا ہے کہ عمران خان نے ’جانتے بوجھتے‘ توشہ خانہ سے لیے گئے تحائف کو چھپایا اور یہ کہ انھوں نے ‘قبول کیا ہے جیسا کہ مختلف میڈیا رپورٹس میں کہا گیا کہ انھوں نے یہ تحائف فروخت کیے۔ لیکن الیکشن کمیشن کے دستاویزات میں ان کی فروخت بھی چھپائی گئی۔
دستاویز کے مطابق سابق وزیر اعظم عمران خان کو اپنی حکومت کے دوران کل 58 تحائف ملے جن میں مختلف اشیا تھیں۔ یہ تحائف عمران خان نے توشہ خانہ سے 20 اور بعدازاں 50 فیصد رقم ادا کر کے حاصل کیے۔
ان میں سے کئی ایسے ہیں جن کی لاگت 30 ہزار سے کم تھی لہٰذا قانون کے مطابق وہ یہ تحائف مفت حاصل کر سکتے تھے جبکہ 30 ہزار سے زائد مالیت کے تحائف کی قیمت کا 20 فیصد ادا کر کے حاصل کیے گئے۔
عمران خان نے کون سے تحائف خریدے؟
عمران خان کی حکومت کے ابتدائی دو ماہ کے دوران لیے گئے ان تحائف میں گراف کی گھڑی ہے، جس کی مالیت آٹھ کروڑ 50 لاکھ لگائی گئی جبکہ اسی پیک میں شامل دیگر تحائف میں 56 لاکھ 70 ہزار مالیت کے کف لنکس، 15 لاکھ مالیت کا ایک قلم اور 87 لاکھ 50 ہزار مالیت کی ایک انگوٹھی بھی شامل تھی۔ ان چار اشیا کے لیے عمران خان نے دو کروڑ روپے سے زائد رقم جمع کرائی اور یہ تحائف سرکاری خزانے سے حاصل کیے۔
اسی طرح رولیکس کی ایک گھڑی جس کی مالیت 38 لاکھ تھی، عمران خان نے یہ ساڑھے سات لاکھ کے عوض خریدی۔ رولیکس ہی کی ایک اور گھڑی جس کی مالیت 15 لاکھ روپے لگائی گئی، سابق وزیراعظم نے تقریباً ڈھائی لاکھ میں خریدی۔
اسی طرح ایک اور موقع پر گھڑی اور کف لنکس وغیرہ پر مشتمل ایک باکس کی کل مالیت 49 لاکھ تھی، جس کی نصف رقم ادا کی گئی جبکہ جیولری کا ایک سیٹ 90 لاکھ میں خریدا گیا جس کی مالیت ایک کروڑ 80 لاکھ سے زائد مختص کی گئی تھی۔
دستاویر کے مطابق وہ گھڑی جس کے بارے میں یہ الزام ہے کہ اسے بیچ دیا گیا، وہ بھی الیکشن کمیشن کے گوشواروں میں درج نہیں کی گئی۔
خیال رہے کہ یہ گھڑی سابق خاتون اول بشریٰ بی بی نے سعودی عرب کے پہلے دورے کے دوران تحفے کے طور پر لی تھی۔ اس کی مالیت 85 ملین بتائی گئی ہے جسے توشہ خانے سے 20 فیصد ادائیگی کے بعد لیا گیا۔