نئی دہلی (ڈیلی اردو/وی او اے) بھارتی ریاست گجرات ہائی کورٹ کے ایک ڈویژن بینچ نے رواں ماہ مسلمان ملزمان کو پولیس کی جانب سے سرِعام کوڑے مارنے کے معاملے پر ریاستی حکومت اور پولیس کو نوٹس جاری کر دیے ہیں۔
گجرات ہائی کورٹ کے چیف جسٹس اروند کمار اور جسٹس اے جے شاستری پر مشتمل ڈویژن بینچ نے اس معاملے میں ریاستی حکومت اور 15 پولیس اہلکاروں کو نوٹس جاری کیے ہیں۔ انہیں 12 دسمبر تک جواب داخل کرنا ہے۔ یہ نوٹس پانچ مقامی مسلمانوں کی جانب سے داخل کی جانے والی اپیل پر کارروائی کرتے ہوئے جاری کیے گئے۔
سینئر ایڈووکیٹ آئی ایچ سید نے عدالت میں درخواست گزاروں کی جانب سے کہا کہ پولیس اہلکاروں نے خود ہی اس واقعے کی ویڈیو بنائی اور اسے سوشل میڈیا پر پوسٹ کیا۔
دوسری جانب سپریم کورٹ نے مسلمانوں کے خلاف مبینہ نفرت انگیز تقاریر پر مرکزی حکومت اور ریاستی حکومتوں سے جواب طلب کر لیا ہے۔
سپریم کورٹ نے اس معاملے پر جمعے کو بھی سماعت کی۔ اس نے دہلی، اترپردیش اور اتراکھنڈ کے پولیس سربراہوں سے پوچھا کہ وہ بتائیں کہ اب تک اس بارے میں کیا کارروائی کی گئی ہے۔
عدالت نے پولیس کے جونئیر افسروں کو ہدایت دی کہ وہ نفرت انگیز تقریر کرنے والوں کے خلاف فوری کارروائی کریں۔
عدالت نے کہا کہ یہ 21 ویں صدی ہے۔ ہم مذہب کے نام پر کہاں پہنچ گئے ہیں۔ بھارت ایک سیکولر ملک ہے۔ وہ مذہب کے معاملے میں غیر جانبدار ہے۔
بینچ نے زور دے کر کہا کہ اگر انتظامیہ کی جانب سے نفرت انگیز تقریر کرنے والوں کے خلاف کارروائی نہیں کی گئی تو اس کے خلاف توہینِ عدالت کے تحت کارروائی کی جائے گی۔
مسلمان ملزمان کو کوڑے مارنے کا معاملہ تاحال موضوعِ بحث
گجرات کے کھیڑہ ضلع کے اندھیلا گاؤں کے مسلمانوں پر الزام عائد کیا گیا تھا کہ انہوں نے تین اور چار اکتوبر کی درمیانی شب ہندو مذہب کی تقریب ’گربا ڈانس‘ کے پروگرام میں پتھراؤ کیا تھا جس پر ہندوؤں اور مسلمانوں میں تصادم ہوا اور کئی افراد زخمی ہو گئے تھے۔ مسلمانوں نے اس الزام کی تردید کی ہے۔
چار اکتوبر کو پانچ مسلمانوں کو ایک پولیس وین میں گاؤں کے چوک پر لایا گیا اور وہاں بجلی کے ایک کھمبے سے یکے بعد دیگرے باندھ کر سرعام ان کی پٹائی کی گئی۔
اس موقع پر وہاں پولیس اہلکاروں کے ساتھ ایک ہجوم بھی موجود تھا۔ مسلمانوں سے ہجوم سے ہاتھ جوڑ کر معافی بھی منگوائی گئی جس پر ہجوم نے خوشی کے نعرے لگائے۔
بعد میں میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا کہ سادے لباس میں پٹائی کرنے والا شخص پولیس کی کرائم برانچ میں انسپکٹر ہے۔ اس کی معاونت کرنے والا بھی پولیس اہلکار ہے۔ مذکورہ مسلمانوں کو پولیس وین میں بٹھا کر عدالت لے جایا گیا جس نے انہیں جیل بھیج دیا۔
درخواست گزاروں نے احمد آباد رینج کے انسپکٹر جنرل (آئی جی)، کھیڑہ کے سپرنٹنڈنٹ آف پولیس (ایس پی)، متار پولیس اسٹیشن کے 10کانسٹیبل اور مقامی کرائم برانچ کے بعض اہلکاروں کو بھی ملزم بنایا ہے۔
انہوں نے ڈی کے باسو بنام اسٹیٹ آف بنگال معاملے میں سپریم کورٹ کی جانب سے جاری کی گئی رہنما ہدایات کی خلاف ورزی پر ان پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
درخواست گزاروں میں سے ایک مقصودہ بانو نے کہا ہے کہ پولیس اہلکار واقعے کی شب میں دو بجے ان کے گھر میں خاتون پولیس کے بغیر داخل ہوئے تھے۔
انہوں نے الزام لگایا کہ ایک پولیس اہلکار نے ان کی پٹائی کی تھی جس میں وہ زخمی ہو گئی تھیں۔
لیکن اس معاملے میں قانون دانوں میں اختلاف ہے۔ جہاں ایک طرف درخواست گزاروں کے وکیل کا یہ کہنا ہے کہ پولیس نے سپریم کورٹ کی رہنما ہدایات کی خلاف ورزی کی ہے وہیں سپریم کورٹ کے ایک سینئر وکیل محمود پراچہ کا کہنا ہے کہ یہ معاملہ سپریم کورٹ کی رہنما ہدایات کے دائرے میں نہیں آتا۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ کسی بھی قانون میں ملزم یا مجرم کی پٹائی کی اجازت نہیں ہے۔ اگر کوئی ملزم مجرم ثابت ہوتا ہے تو اسے جیل ہو گی عوامی طور پر سزا نہیں دی جائے گی۔ لہٰذا یہ معاملہ اغوا کا ہے اور اگر پولیس اہلکاروں نے ملزموں سے کچھ مطالبہ کیا ہوگا تو پھر ان کے خلاف بالجبر وصولی کی بھی دفعہ لگے گی۔
ان کے مطابق جن اعلیٰ پولیس اہلکاروں کے علم میں یہ بات رہی ہو گی ان کے اور اس واقعے کا علم ہونے کے بعد اب تک جن پولیس افسروں نے کوئی کارروائی نہیں کی ان تمام لوگوں کو سازش میں شریک ہونے کا ملزم بنایا جائے گا۔
خیال رہے کہ گجرات پولیس کے ڈائرکٹر جنرل آشیش بھاٹیہ نے اس واقعہ کی تحقیقات کا حکم دیا ہے۔ تحقیقات کی ذمے داری ایک ایس پی وی این سولنکی کو سونپی گئی ہے۔
انہوں نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے کہا کہ وہ جلد ہی اپنی رپورٹ پیش کر دیں گے۔ لیکن تاحال اس سلسلے میں مذکورہ واقعہ میں ملوث پولیس اہلکاروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں کی گئی اور نہ ہی رپورٹ ہی پیش کی گئی ہے۔
دریں اثنا مسلمانوں کی ایک تنظیم ’مائنارٹی کو آرڈینیشن کمیٹی‘ نے اس واقعہ میں شامل پولیس اہلکاروں کو قانونی نوٹس بھیجا ہے۔
انسانی حقوق کے بین الاقوامی ادارے ایمنسٹی انٹرنیشنل سمیت انسانی حقوق کی متعدد تنظیموں نے عوامی طور پر مسلمانوں کی پٹائی کی مذمت کی ہے اور اسے انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے ذمہ دار پولیس اہلکاروں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کیا ہے۔
آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اور حیدرآباد سے رکن پارلیمان اسد الدین اویسی سمیت متعدد سیاست دانوں نے بھی اس واقعہ کی مذمت کی ہے۔
دوسری جانب آٹھ اکتوبر کو دہلی میں شدت پسند تنظیم وشو ہندو پریشد اور دیگر تنظیموں کی جانب سے منعقد ہونے والے ایک عوامی جلسے میں حکمراں جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی (بی جے پی) کے رکن پارلیمان پرویش ورما نے مسلمانوں کے بائیکاٹ کی اپیل کی جب کہ دیگر مقررین نے مسلمانوں کے خلاف مبینہ نفرت انگیز تقریریں کیں۔
اس سے قبل بھی دہلی، ہریدوار اور دیگر مقامات پر ہندو مذہبی رہنماؤں کے عوامی جلسوں میں مسلمانوں کے خلاف مبینہ طور پر اشتعال انگیزی کی گئی تھی۔
شاہین عبد اللہ نامی دہلی کے ایک رہائشی نے مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز جرائم میں ملوث افراد کے خلاف غیر قانونی سرگرمیوں کی روک تھام سے متعلق قانون ’یو اے پی اے‘ کے تحت کارروائی کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔
تاہم جسٹس اجے رستوگی اور جسٹس سی ٹی روی کمار پر مشتمل بینچ نے پٹیشن کو مبہم قرار دیا اور کہا کہ ایسے انفرادی معاملات پر جن میں ایف آئی آر درج کی گئی ہو، عدالت از خود کارروائی کر سکتی ہے۔
اس پر درخواست گزار کی جانب سے پیش ہونے والے سینئر وکیل کپل سبل نے کہا کہ جو لوگ نفرت انگیز تقریروں یا جرائم میں ملوث ہوں ان کے خلاف کارروائی کی ضرورت ہے۔ عدالت نے اس پٹیشن کو ہیٹ اسپیچ سے متعلق دیگر پٹیشنز کے ساتھ منسلک کر دیا۔
محمود پراچہ کے مطابق مبینہ نفرت انگیزیوں کے خلاف اپیل دائر کرنے کے لیے سپریم کورٹ مناسب فورم نہیں ہے بلکہ خصوصی عدالتوں میں کیس داخل کیا جانا چاہیے۔
یاد رہے کہ محمود پراچہ نے نچلی اور خصوصی عدالتوں میں ہیٹ اسپیچ کے سلسلے میں یو اے پی اے کے تحت کارروائی کی اپیل کرتے ہوئے کئی مقدمات داخل کر رکھے ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ سپریم کورٹ میں عرضی داخل کیے جانے سے خصوصی عدالتوں میں چل رہے مقدمات پر منفی اثر پڑے گا۔
تاہم انھوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ مسلمانوں کے خلاف مبینہ نفرت انگیزی کے معاملات میں عدالتوں سے مبنی بر انصاف فیصلہ کیا جائے گا۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق بی جے پی کے صدر جے پی نڈا نے مسلمانوں کے بائیکاٹ کی اپیل پر رکن پارلیمان پرویش ورما سے جواب طلب کیا ہے۔
خیال رہے کہ بھارتی جنتا پارٹی (بی جے پی) مسلمانوں یا کسی بھی اقلیت کے خلاف اشتعال انگیزی کے الزامات کی تردید کرتی رہی ہے۔
حکمراں جماعت کا یہ مؤقف رہا ہے کہ بھارت میں ہر مذہب سے تعلق رکھنے والے فرد کو بھارتی آئین کے مطابق آزادی حاصل ہے۔