نیو یارک (ڈیلی اردو/ڈی پی اے ) ہیومن رائٹس واچ کے مطابق رواں برس فروری اور جولائی کے درمیان ترکی نے سیکڑوں شامیوں کو زبردستی ملک بدر کر دیا۔ مہاجرین کا کہنا ہے کہ انہیں ان فارموں پر دستخط کرنے پر مجبور کیا گیا جسے وہ رضاکارانہ وطن واپسی سمجھتے تھے۔
حقوق انسانی کی بین الاقوامی تنظیم ‘ہیومن رائٹس واچ’ (ایچ آر ڈبلیو) نے 24 اکتوبر پیر کے روز کہا کہ ترک حکام نے فروری اور جولائی 2022 کے درمیان سینکڑوں شامی لڑکوں اور مردوں کو من مانے طور پر گرفتار کر کے شام بھیج دیا۔
گروپ کا کہنا ہے کہ ایسے بہت سے جلاوطن شامیوں نے تنظیم کے محققین کو بتایا ہے کہ ان میں سے بہت سے لوگوں کو ان کے گھروں، کام کی جگہوں اور یہاں تک کہ انہیں سڑکوں پر سے ہی گرفتار کیا گیا تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ زیادہ تر وقت ان کے ساتھ بدسلوکی کی جاتی تھی اور انہیں ایسی دستاویزات پر دستخط کرنے کے لیے مجبور کیا جاتا تھا، جسے وہ یہ سمجھتے تھے کہ یہ رضاکارانہ طور پر وطن واپسی کے معاہدے ہیں۔
‘ترکی بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کر رہا ہے’
انسانی حقوق کے گروپ نے جن افراد سے انٹرویو کیا انہوں نے تنظیم کو بتایا کہ انہیں ہمسایہ ملک شام کے ساتھ سرحد پر لے جایا گیا اور بندوق کی نوک پر زبردستی سرحد عبور کرنے پر مجبور کیا گیا۔
ہیومن رائٹس واچ میں پناہ گزینوں اور تارکین وطن کے حقوق کی محقق نادیہ ہارڈمین کا کہنا تھا، ”بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کرتے ہوئے، ترک حکام نے سینکڑوں شامی پناہ گزینوں، یہاں تک سرپرست کے بغیر بچوں کو بھی پکڑا اور انہیں واپس شام بھیج دیا۔”
انہوں نے مزید کہا کہ یورپی یونین کو چاہیے کہ جب تک اس طرح کی جبری ملک بدری ختم نہیں ہو جاتی، اس وقت تک وہ اپنی امداد میں کمی کر دے۔ واضح رہے کہ یورپی یونین ترکی میں تارکین وطن کے رہائشی مراکز کے لیے خصوصی فنڈ فراہم کرتی ہے۔
ایچ آر ڈبلیو نے فروری اور اگست کے درمیان ایسے 37 شامی مردوں اور دو لڑکوں کے ساتھ ہی ان لوگوں کے رشتہ داروں کا انٹرویو بھی کیا ہے، جنہیں ترکی سے ملک بدر کیا گیا تھا۔ انٹرویو دینے والوں نے بتایا کہ انہیں درجنوں یا پھر سینکڑوں دیگر لوگوں کے ساتھ ترکی سے باہر نکالا گیا تھا۔