اسلام آباد (ڈیلی اردو/بی بی سی) اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل بابر افتخار نے کہا ہے کہ ارشد شریف کی وفات پر سب کو شدید دکھ ہے کیونکہ وہ ایک فوجی کے بیٹے، ایک شہید کے بھائی اور ایک حاضر سروس افسر کے برادر نسبتی تھے۔
بابر افتخار نے کہا کہ جب سائفر کا معاملہ سامنے آیا تو انھوں نے اس پر متعدد پروگرام کیے اور اس وقت کے وزیر اعظم کے کئی انٹرویوز کیے، یہ بات بھی ہوئی کہ شاید اُن کو سائفر بھی دکھایا گیا۔
ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ ’سائفر اور ان کی وفات سے جڑے حقائق تک پہنچنا ضروری ہے تاکہ سب کو سچ معلوم ہر سکے۔‘
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ’ارشد شریف اور کئی دیگر نے سخت باتیں بھی کیں۔ ارشد شریف نے اداروں کے حوالے سے کئی سخت پروگرام کیے۔ کئی اور لوگ بھی سخت سوالات کرتے رہے جو اب بھی پاکستان میں ہیں۔‘
انھوں نے کہا کہ ’ہم نے ہمیشہ کہا کہ بنا ثبوت مفروضوں کی وجہ سے فوج کو نشانہ نہ بنایا جائے۔‘
ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ ’پانچ اگست 2022 کو حکومت نے تھریٹ الرٹ جاری کیا۔ یہ وزیر اعلی خیبرپختونخوا کی ہدایت پر جاری کیا گیا کہ افغانستان میں ٹی ٹی پی نے میٹنگ کی جو ارشد شریف کو ٹارگٹ کرنا چاہتے ہیں۔ مگر سکیورٹی اداروں کو کوئی معلومات فراہم نہیں کی گئیں۔‘
انھوں نے دعویٰ کیا کہ ’اس سے ظاہر ہوتا ہے یہ الرٹ اُن کو ملک چھوڑنے پر آمادہ کرنے کے لیے جاری کیا گیا۔ وہ نہیں جانا چاہتے تھے۔‘ انھوں نے کہا کہ ’شہباز گل کے متنازع بیان کے بعد تفتیش میں ثابت ہوا کہ اے آر وائی کے سلمان اقبال نے عماد یوسف کو ہدایات دیں کہ ارشد شریف کو جلد از جلد پاکستان سے باہر بھجوا دیا جائے۔ اس حوالے سے ایک بیانیہ بنایا گیا کہ ارشد شریف کو بیرون ملک قتل کر دیا جائے گا۔‘
انھوں نے بتایا کہ ’کراچی سے ارشد شریف کی کراچی سے ٹکٹ بک کی گئی جو عمران کے نام پر فضل ربی ٹریول ایجنٹ نے پانچ لاکھ پر کی۔ دس اگست کو ارشد شریف پشاور سے دبئِی روانہ ہوئے۔ کے پی حکومت نے انھیں پورا پروٹوکول دیا۔ عمر گل آفریدی نے ان کو گرین ڈبل کیبن میں ایئر پورٹ پہنچایا۔‘
انھوں نے کہا کہ اداروں کی جانب سے ارشد شریف کو روکنے کی کوئی کوشش نہیں کی گئی اس بات سے قطع نظر کہ حکومت ایف آئی اے کے ذریعے اس عمل کو روک سکتی تھی۔ انھوں نے کہا کہ ’ارشد کینیا اس وقت روانہ ہوئے جب ان کا دبئی کا ویزا ختم ہوا۔ کسی نے ان کو نکلنے پر مجبور نہیں کیا۔ تو وہ کون تھے جنھوں نے ان کو جانے پر مجبور کیا؟‘
انھوں نے کہا ’یہ جاننا بھی ضروری ہے کہ متحدہ عرب امارات میں ارشد شریف کے رہنے کا بندوبست کس نے کیا؟ کس نے ان کو کہا کہ ان کی جان کینیا میں محفوظ ہے اور پاکستان میں ان کو خطرہ ہے؟ کس نے ان کو کہا کہ صرف کینیا ویزہ فری ملک ہے؟ ان کی کینیا میں میزبانی کون کر رہا تھا؟ ان کا ارشد سے کیا تعلق تھا؟ کیا وہ ان کو پہلے سے جانتے تھے؟‘
مزید سوالات اٹھاتے ہوئے ڈی جی آئی ایس پی آر کا کہنا تھا کہ ’ارشد شریف کی وفات ایک دور افتادہ علاقے میں ہوئی تو اُن کی وفات کی خبر پہلے کس کو ملی؟ کیا یہ واقعی حادثاتی ہلاکت تھی یا ٹارگٹ کلنگ؟‘ انھوں نے کہا کہ ’ہم نے حکومت سے درخواست کی ہے کہ بین الاقوامی فورم چاہے یو این کے ماہرین کی ضرورت ہو تو ان کو اس ہلاکت کی تفتیش میں شامل کرنا چاہیے۔ سلمان اقبال صاحب کو پاکستان لایا جائے اور شامل تفتیش کیا جائے۔‘
انھوں نے کہا کہ سوشل میڈیا پر الزامات کا رُخ فوج کی جانب کر دیا گیا۔ اس سے کون فائدہ اٹھا رہا ہے؟ ’میں نے اب تک کی تفصیلات سامنے رکھ دی ہیں۔ آپ کا فرض ہے کہ ان کی تہہ تک پہنچیں۔ جب تک انکوائری رپورٹ سامنے نہیں آتی، الزام تراشی نہیں ہونی چاہیے۔ ‘
انھوں نے کہا کہ ’ہم غلط ہو سکتے ہیں، غدار نہیں ہو سکتے۔‘
ڈی جی آئی ایس پی آر نے کہا کہ ارشد شریف کیس میں تفتیش کو مکمل طور پر شفاف اور غیر جانب دار ہونا چاہیے۔ ’ہم نے ہی حکومت سے درخواست کی تھی۔ یہ کمیشن کسی کو بھی بلا سکتا ہے۔ اس واقعے کے جتنے شواہد ہیں، ان کو پوری طرح پرکھنا ہو گا۔‘
ارشد شریف نے واپسی کی خواہش کا اظہار کیا تھا، ڈی جی آئی ایس آئی
اسلام آباد میں پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا ہے کہ ارشد کی سیاسی رائے پر اختلاف ہو سکتا ہے مگر اُن کی کام سے لگن سے کوئی انکار نہیں کر سکتا۔
انھوں نے کہا کہ ’ان (ارشد شریف) کا ہمارے ادارے سے رابطہ تھا۔ انھوں نے ہمارے ایک جنرل سے رابطہ رکھا۔ انھوں نے واپسی کی خواہش کا اظہار بھی کیا تھا۔‘
ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ ’ہم اس واقعے پر کینیا کے سرکاری مؤقف سے مطمئن نہیں۔ میں نے اس سلسلے میں کینیا میں اپنے ہم منصب سے رابطہ کیا ہے۔‘
اس حوالے سے بننے والے کمیشن سے متعلق سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ ’میں نے دانستہ طور پر آئی ایس آئی کے رکن کو دونوں تحقیقاتی فورمز سے نکالا تاکہ شفاف تحقیقات کا نتیجہ سامنے آئے۔‘
ایک سوال کے جواب میں ڈی جی آئی ایس آئی نے کہا کہ ’ارشد شریف کے ہمارے ادارے کے افسران سے اچھے تعلقات تھے۔ میں نہیں سمجھتا کہ کسی نے ان کو دھمکایا۔ اگر حکومت یا اسٹیبلشمنٹ چاہتی کہ وہ ملک سے نہ جائیں تو کیا وہ جا سکتے تھے۔‘