نیو یارک (ڈیلی اردو/اردو/ڈی پی اے/اے ایف پی/اے پی) ایک 22 سالہ خاتون مہسا امینی کی اخلاقی پولیس کے ہاتھوں گرفتاری کے دوران موت کے بعد 16 ستمبر سے مظاہروں کا سلسلہ جاری ہے۔ اس دوران پرتشدد مظاہروں میں تقریباً 300 افراد ہلاک ہو چکے ہیں۔
Despite killing of hundreds of protesters and the arrest of more than 14,000 people, today there was a massive uprising in Karaj, and other cities in Iran, on the 40th day after the killing of protesters #HadisNajafi and other victims.#MahsaAmini pic.twitter.com/Y1FhOfYiFb
— Masih Alinejad ????️ (@AlinejadMasih) November 3, 2022
ایران میں انسانی حقوق کے حوالے سے اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب جاوید رحمان نے امریکی نیوز چینل سی این این کو دیے گئے ایک انٹرویو میں کہا، “گزشتہ چھ ہفتوں کے دوران مرد، خواتین اور بچوں سمیت ہزاروں افراد گرفتار کیے جا چکے ہیں۔ بعض اعداد و شمار کے مطابق ان کی تعداد 14000 سے زیادہ ہوچکی ہے۔ گرفتار کیے گئے افراد میں انسانی حقوق کے علمبردار، طلبا، وکلاء، صحافی اور سول سوسائٹی کے کارکنان شامل ہیں۔”
“14,000 people are behind bars in #Iran… and clearly the government is struggling to contain the protests,” @JomanaCNN reports on the sham trials and state crackdown. Thanks for keep covering #IranProtests2022.
#MahsaAmini #مهسا_امینی pic.twitter.com/0l9egXname— Omid Memarian (@Omid_M) November 4, 2022
خیال رہے کہ اسلامی جمہوریہ میں 16 ستمبر کو ایک 22 سالہ خاتون مہسا امینی کی موت کے بعد ملک بھر میں احتجاجی مظاہروں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔ مہسا امینی کو ایران کے سخت حجاب قانون پر مبینہ طور پر عمل نہ کرنے کے الزام میں اخلاقی پولیس نے گرفتار کرلیا تھا اور بعد میں پولیس حراست میں ہی ان کی موت ہو گئی۔
ایرانی مظاہرین کی حمایت میں دنیا کے متعدد ملکوں میں بھی مظاہرے ہو رہے ہیں۔
تقریباً 300 افراد ہلاک
جاوید رحمان نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کو خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ایران میں سکیورٹی فورسز کی پرتشدد کارروائیوں کے نتیجے میں کم از کم 277 افراد کی ہلاکت کی تصدیق ہو چکی ہے۔
بعض غیر مصدقہ رپورٹوں کے مطابق ہلاک ہونے والوں کی تعداد 300 کے قریب پہنچ چکی ہے۔ ایرانی حکومت کے علاوہ کسی دوسرے کی جانب سے اعداد و شمار کی تصدیق ممکن نہیں ہے۔
نیویارک سے سرگرم صحافیوں کی تنظیم ‘کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس’ کے مطابق کم از کم 51 صحافیوں کو گرفتار کیا گیا ہے۔ ان میں سے 14 کی ضمانت پر رہائی کی تصدیق ہو چکی ہے۔
تازہ ترین گرفتاری صحافی یغما فشخامی کی ہوئی ہے۔ جب کہ وال اسٹریٹ جرنل کے لیے رپورٹنگ کرنے والے صحافی حسن رونقی کے حوالے سے فکر مندی بڑھتی جا رہی ہے۔ انہیں ستمبرمیں گرفتار کیا گیا تھا۔ ان کے اہل خانہ کے مطابق پولیس کارروائی میں ان کے دونوں پاوں ٹوٹ گئے ہیں اور وہ بھوک ہڑتال پر ہیں۔
اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب رحمان کا کہنا تھا کہ جاری احتجاجی مظاہروں کے سلسلے میں تقریباً 1000 افراد کے خلاف مقدمہ چلایا جا سکتا ہے اور ان میں سے بعض کو سزائے موت دیے جانے کا خدشہ ہے۔
ایران کی سرکاری میڈیا نے بھی کہا ہے کہ ملک گیر مظاہروں میں ملوث ہونے کے سلسلے میں تقریباً 1000 افراد کو قصور وار قرار دیا گیا ہے۔
امریکی نائب صدر نے ایرانی خواتین کی تعریف کی
امریکی نائب صد رکمالا ہیرس نے احتجاج کی قیادت کرنے والی “بہادر” خواتین کی تعریف کی۔ انہوں نے کہا کہ واشنگٹن ایران کو اقوام متحدہ کے خواتین کمیشن سے باہر نکالنے کے لیے کام کرے گا۔
کمالا ہیرس کا کہنا تھا، “ایران نے خواتین کے حقوق سے انکار کرکے اور اپنے ہی عوام کے خلاف بربریت کا مظاہرہ کرکے یہ دکھا دیا ہے کہ وہ اس کمیشن میں رہنے کے لیے موزوں نہیں ہے۔”
دریں اثنا جمعرات کے روز بھی ایران کے مختلف شہروں میں مظاہروں کا سلسلہ جاری رہا۔ بعض تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ گزشتہ چھ ہفتوں سے جاری یہ مظاہرے سن 1979 کے بعد سے اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت کے لیے سب سے بڑا چیلنج ہے۔
ایران کے روحانی پیشوا آیت اللہ خامنہ ای سمیت متعدد اعلیٰ ایرانی رہنماوں نے ملک میں شورش کے لیے امریکہ اور اسرائیل کو مورد الزام ٹھہرایا ہے۔