نئی دہلی (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) ایک ایسے وقت جب بھارت خلیج بنگال میں اپنے میزائل تجربات کی تیاری کر رہا ہے، خلائی ٹریکنگ والا چینی کروز جہاز اس سمندر میں موجود ہے۔ حکام کے مطابق بھارتی بحریہ کی چینی جہاز کی نقل و حرکت پر گہری نظر ہے۔
بھارت اور بعض عالمی میڈیا اداروں نے بھارتی وزارت دفاع کے حوالے سے اطلاع دی ہے کہ ایک اہم پیش رفت کے تحت جب سے چین کا عسکری نوعیت کا جاسوسی جہاز انڈونیشیا کے راستے سے بحر ہند میں داخل ہوا ہے، تبھی سے بھارت کی اس پر کڑی نظر ہے۔
اطلاعات کے مطابق 22 ہزار ٹن سے زیادہ وزنی یوآن وانگ 6 چینی جہاز بڑے اینٹینا، ہائی ٹیک نگرانی کے آلات اور الیکٹرانک اسنوپنگ سینسر سے لیس ہے۔ یہ جہاز سیٹلائٹ لانچوں کی نگرانی کرنے کے ساتھ ہی طویل فاصلے تک مار کرنے والے بیلسٹک میزائلوں کی رسائی کو بھی ٹریک کرتا ہے۔
بحر ہند میں نگرانی کے لیے جاسوس جہاز
یوآن وانگ 6 جہاز گزشتہ جمعے کی صبح انڈونیشیا کے بالی کے ساحل سے روانہ ہوا تھا اور پھر بحر ہند میں داخل ہوا۔ چینی بحریہ کی جانب سے اس علاقے میں بھیجے گئے اس زمرے کے جاسوس جہاز، میزائل ٹیسٹ اور سیٹلائٹ کی نقل و حرکت پر نظر رکھنے کے لیے معروف ہیں۔
بھارتی خبر رساں ادارے اے این آئی نے بھارتی محکمہ دفاع کے حکام کے حوالے اطلاع دی ہے کہ بھارتی بحریہ ”بحر ہند میں داخل ہونے کے بعد سے ہی چینی ریسرچ جہاز کی کڑی نگرانی کر رہی ہے۔‘‘
بھارت میزائل ٹیسٹ ملتوی کر سکتا ہے؟
اس سے قبل بھارت نے طویل فاصلے تک مار کرنے والے اپنے بیلسٹک میزائل کے تجربے کے لیے 10 اور 11 نومبر کے درمیان خلیج بنگال میں نو فلائی زون کو وسعت دینے کے لیے ایئرمین کو نوٹس جاری کیا تھا۔ کسی بھی میزائل ٹیسٹ سے قبل اس طرح کا نوٹس پہلے ہی جاری کیا جاتا ہے۔
محکمہ دفاع کے ذرائع کا کہنا ہے، ’’جب بھی بھارت کسی ہتھیار کا کوئی تجربہ کرنے والا ہوتا ہے، چین مسلسل اسی وقت اپنے ایسے جاسوس جہاز بحر ہند میں بھیجتا رہا ہے، جو تکنیکی انٹیلیجنس جمع کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔‘‘
اطلاعات کے مطابق موجودہ صورتحال کی وجہ سے ہی بھارت شاید اگلے ہفتے ہونے والے اگنی سیریز کے اپنے میزائل ٹیسٹ کو ملتوی کر سکتا ہے، کیونکہ چینی جہاز میزائل کی رفتار، درستگی اور اس رینج کا آسانی سے پتہ لگا سکتے ہیں۔
رواں برس اگست میں جب چینی جہاز یوآن وانگ- 5 نے سری لنکا کے ہمبنٹوٹا بندرگاہ پر بیڑا ڈآلا تھا تو اس وقت بھی بھارت نے شدید تشویش کا اظہار کیا تھا۔
بھارت کی تشویش صرف چین کے جاسوس جہازوں کے بارے میں ہی نہیں تھی بلکہ سری لنکا کی ہمبنٹوٹا بندرگاہ کے بارے میں بھی ہے، جسے سری لنکا نے قرض کی عدم ادائیگی کی وجہ سے چین کو 99 برس کے لیے لیز پر دے رکھا ہے۔
سرحدی تنازعہ اور کشیدگی
بھارت اور چین کے یہ اقدام دونوں میں پائے جانے والی موجودہ کشیدگی کے عکاس ہیں، جس کی وجہ دونوں ممالک میں ایک طویل سرحدی تنازعہ بھی ہے۔ دونوں کے درمیان شمال مشرقی علاقے سکم سے لے کر مشرقی لداخ تک تقریباً تین ہزار کلو میٹر لمبی سرحد ہے۔ بیشتر علاقے میں لائن آف ایکچوئل کنٹرول قائم ہے اور دونوں کے درمیان سرحدی تنازعہ ایک دیرینہ مسئلہ ہے۔
ایل او اے سی پر تنازعے کی وجہ سے ہی دونوں ہمسایہ ممالک کے مابین گزشتہ تقریبا دو سال سے مشرقی لداخ میں کچھ زیادہ ہی کشیدگی پائی جاتی ہے۔ پندرہ جون 2020 کو رات گئے مشرقی لداخ کی وادی گلوان میں دونوں ممالک کے فوجی دستوں کے مابین شدید جھڑپیں ہوئی تھیں، جن میں بھارت کے کم از کم 20 اور چین کے چار فوجی ہلاک ہو گئے تھے۔