نیروبی (ڈیلی اردو/وی او اے) کینیا میں پولیس کے نگران ادارے کی کمشنر کا کہنا ہے ارشد شریف کی گاڑی کو ناکے پر روکنے کے اسباب پر شکوک پائے جاتے ہیں۔
وائس آف امریکہ کی کینیا میں موجود نمائندہ ارم عباسی کو دیے گئے انٹرویو میں کینیا کی انڈیپنڈنٹ پولیسنگ اتھارٹی (آئی پی او اے) کی کمشنر پراکسیڈس ٹروری کا کہنا تھا کہ ابتدئی طور پر ان کا شبہہ یہی تھا کہ ارشد شریف کی گاڑی پر پولیس ناکے پر نہ رکنے کی وجہ سے گولی چلائی گئی۔ لیکن ان کے بقول اب وہ نہیں سمجھتیں کہ اس کی وجہ یہ تھی۔
ارشد شریف کی ہلاکت کا معاملہ ابھی تک حل طلب ہے اور پاکستان اور کینیا کی تفتیشی ٹیمیں مختلف پہلوؤں سے واقعے کی تحقیقات کر رہی ہیں۔ ہماری نمائندہ ارم عباسی اس کیس سے جڑے سوالوں کے جواب ڈھونڈنے کینیا پہنچی ہیں۔ اس رپورٹ میں جانیے کہ کینیا میں اس واقعے کی تحقیقات کہاں تک پہنچی ہیں۔ pic.twitter.com/7Ay84Ezaf3
— VOA Urdu (@voaurdu) November 7, 2022
کینیا میں انڈیپنڈنٹ پولیسنگ اوورسائٹ اتھارٹی (آئی پی او اے) 2012 میں قائم کی گئی تھی۔ یہ اتھارٹی پولیس پر سویلینز کی نگرانی کے لیے بنائی گئی ہے۔ آئی پی او اے پولیس افسران کے خلاف موصول ہونے والی شکایات کی تحقیقات کی مجاز ہے۔
گزشتہ ماہ پاکستانی صحافی ارشد شریف کی کینیا میں ہلاکت کے بعد اس واقعے کے اسباب اور کینیا کی پولیس کے اس میں کردار سے متعلق کئی سوالات اٹھائے گئے تھے۔
ماضی میں ماورائے عدالت قتل کے واقعات اور ارشد شریف کی ہلاکت کے واقعے میں پولیس کے بیانات میں تضادات کی نشاندہی کے بعد اس ہلاکت سے متعلق کینیا اور پاکستان میں بھی اس واقعے کے اسباب اور محرکات پر کئی سوال اٹھائے جارہے ہیں۔
ارشد شریف کی ہلاکت کے بعد آئی پی او اے نے بھی اس معاملے میں پولیس کے کردار سے متعلق تفتیش کا آغاز کیا تھا جب کہ پاکستان سے بھی تفتیش کاروں کی ایک ٹیم کینیا کا دورہ کرچکی ہے۔
آئی پی او اے کی کمشنر پراکسیڈس ٹروری نے وائس آف امریکہ کو اپنے انٹرویو میں اس کیس سے متعلق سامنے آنے والی تفصیلات سے آگاہ کیا ہے۔
بیریئرز کیوں نہیں لگائے گئے؟
ارشد شریف کی ہلاکت کے بعد پولیس نے ابتدائی بیان میں کہا تھا کہ مگادی کے قریب پولیس نے ایک گاڑی کی چوری اور اس میں موجود بچے کے اغوا کی اطلاع پر ناکہ بندی کر رکھی تھی۔ ارشد شریف جس گاڑی میں سوار تھے اسے اس ناکہ بندی پر روکا گیا تھا لیکن ان کی گاڑی نہیں رکی تھی اور اسی وجہ سے پولیس نے اس پر فائرنگ کردی تھی۔
اس بارے میں پراکسیڈیس ٹروری کا کہنا ہے کہ ہماری تحقیقات میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ گاڑی کی تلاش کے لیے جو نمبر پلیٹ پولیس کو دی گئی تھی وہ ارشد شریف کی گاڑی کے نمبر سے مختلف تھی۔ یقینی طور پر یہ دو الگ الگ گاڑیاں ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ اس کے بعد ہمارے سامنے یہ سوال آیا کہ پولیس افسران نے اس گاڑی پر گولی کیوں چلائی؟ یا اسے روکنے کی کوشش کیوں کی؟
انہوں نے بتایا کہ جائے وقوعہ سے ہمیں یہ معلوم ہوا کہ پولیس نے گاڑیوں کو روکنے کے لیے سڑک پر پتھر رکھے تھے۔ جب کہ عام طور پر کینیا میں پولیس ناکہ بندی کے لیے رکاوٹیں یا بیریئرز کا استعمال کرتی ہے اور لوگ ان رکاوٹوں پر اپنی گاڑی روک لیتے ہیں۔
ان کا کہنا ہے کہ عام طور پر پولیس کے پاس سڑک پر لگانے کے بیریئرز ہوتے ہیں۔لیکن اس کیس میں سڑک پر پتھر رکھے گئے تھے۔ہمیں معلوم نہیں کہ ایسا کیوں کیا گیا۔
’گاڑی روکنے کی وجہ مشکوک ہے‘
چوری شدہ گاڑی کے نمبر اور ماڈل الگ ہونے کے باوجود ارشد شریف کی گاڑی کو پولیس ناکے پر کیوں روکا گیا؟ اس بارے میں ٹروری کا کہنا تھا کہ ان کے ذہن میں بھی یہ بات آئی تھی کہ پولیس کے روکنے پر نہ رکنے کی وجہ سے گاڑی پر فائرنگ کی گئی۔
ان کا کہنا ہے کہ ایسا پہلی بار نہیں ہوا کہ کینیا میں پولیس نے ایسی گاڑی پر فائرنگ کی ہو جو ناکے پر نہیں رکی۔
ٹروری کے بقول “میرا بھی پہلا شبہہ یہی تھا کیوں کہ بعض مرتبہ مجرم پولیس سے بچنے کے لیے ایسا کرتے ہیں۔”
لیکن گاڑی سے متعلق تفصیلات سامنے آنے کے بعد ان کا کہنا ہے کہ اب وہ یہ نہیں کہہ سکتیں کہ ارشد شریف کی گاڑی روکنے کی وہی وجہ تھی جو بتائی گئی ہے۔ ان کے بقول اب تفتیش کاروں کا کام ہے کہ اس بارے میں حقیقت سامنے لائیں۔
جی ایس یو کے کردار پر سوال
مگادی ہائی وے کے قریب جس مقام پر پولیس کی گولیوں سے ارشد شریف کی ہلاکت ہوئی وہاں قریب ہی پیرا ملٹری فورس جنرل سروس یونٹ کی موجودگی پر بھی کئی سوالات اٹھائے گئے ہیں۔
یہ یونٹ عام طور پر سنگین جرائم کے خلاف کارروائیاں کرتا ہے اور ماضی میں اس پر کارروائیوں کے دوران حدود سے تجاوز کے الزامات بھی سامنے آتے رہے ہیں۔
ارشد شریف کی ہلاکت کے دن اس یونٹ کی وہاں موجودگی پر یہ سوال اٹھایا گیا تھا کہ ایک گاڑی کی چوری اور اغوا کی واردات کو روکنے کے لیے یہ اسپیشل یونٹ وہاں کیوں موجود تھا؟ آئی پی او اے کی کمشنر کا اس بارے میں کہنا ہے کہ یہ جی ایس یو دراصل اس جگہ کے بہت قریب تھا جہاں یہ واقعہ ہوا۔
انہوں نے کہا کہ ایسا نہیں تھا کہ اس یونٹ کو اغوا کے کیس کی تحقیقات کے لیے یہاں بھیجا گیا تھا۔ بلکہ یہ وہیں قریب موجود تھا۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ جی ایس یو بھی جرائم کا مقابلہ کرتا ہے۔
’ہم ارشد شریف کو نہیں جانتے تھے‘
ارشد شریف کی کینیا میں موجودگی اور پولیس فائرنگ سے ہلاکت کے اسباب پر کئی قیاس آرائیاں سامنے آتی رہی ہیں۔
صحافی ارشد شریف ماضی میں پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی جانب جھکاؤ رکھنے کی شہرت رکھتے تھے تاہم رواں برس اپریل میں پاکستان تحریک انصاف کی حکومت ختم ہونے کے بعد انہیں عمران خان کا حامی اور اسٹیبلشمنٹ کا ناقد سمجھا جانے لگا تھا۔
تحریکِ انصاف کی حکومت کی تبدیلی کے بعد ان کے خلاف مختلف شہروں میں مقدمات بھی درج کیے گئے تھے جس کے بعد وہ پاکستان چھوڑ کر متحدہ عرب امارات چلے گئے تھے اور بعدازاں وہاں سے کینیا آگئےتھے۔
ارشد شریف کی رپورٹنگ کا کینیا میں ان کی ہلاکت سے کیا تعلق ہوسکتا ہے؟ اس بارے میں آئی پی او اے کی کمشنر پراکسیڈس ٹروری کا کہنا تھا کہ بدقسمتی سے ہم اس سے واقف نہیں ہیں۔ ہم اس واقعے سے پہلے ارشد شریف کو جانتے بھی نہیں تھے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس واقعے کے بعد یہ بات اب سامنے آئی ہے کہ وہ ایک غیر ملکی صحافی تھے۔ ہمیں اب آکر معلوم ہورہا ہے کہ انہیں اپنے ملک میں مسائل کا سامنا تھا لیکن ہم اس سے پہلے اس بارے میں نہیں جانتے تھے۔
انہوں ںے کہا کہ اس کیس کی تحقیقات میں جو بھی حقائق آئی پی او اے کے سامنے آئیں گے ان پر مرتب کی گئی سفارشات ڈائریکٹر آف پبلک پراسیکیوشن کو بھیجی جائیں گی۔
ان کا کہنا تھا کہ ارشد شریف کے کیس میں آئی پی او اے اپنی سفارشات وزارتِ داخلہ اور پارلیمنٹ کو بھی بھیجے گی۔
واضح رہے کہ کینیا کی حکومت نے پاکستان کو ارشد شریف کیس کے بارے میں حقائق سامنے لانے کی یقین دہانی کرائی ہے جب کہ پاکستان سے تفتیش کاروں کی ایک ٹیم کینیا کا دورہ کرکے تحقیقات کر چکی ہے۔