تہران (ڈیلی اردو/وی او اے) ایران نے منگل کو دو خواتین صحافیوں پر ملک میں ہونے والے بڑے عوامی احتجاج کی کوریج کرنے کے دوران “ریاست کے خلاف پروپیگنڈہ” کرنے کے الزام عائد کیا۔
ایران کی عدلیہ نے اعلان کیا ہےکہ ’دو صحافی خواتین، نیلوفر حمیدی اور الاھے محمدی کو “نظام کے خلاف پروپیگنڈہ کرنے اور قومی سلامتی کے خلاف سازش کرنے کے الزام میں ریمانڈ میں دے دیا گیا ہے۔‘
دونوں خواتین پہلے ہی ایک ماہ سے زائد عرصے سے حراست میں ہیں۔
ایران میں حکومت مخالف مظاہرے ساتویں ہفتے میں ہیں۔ ستمبر میں مہسا امینی کی ہلاکت کے بعدسے ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے جاری ہیں۔، مہسا امینی کو خواتین کے لباس کے سخت قوانین کی خلاف ورزی کے الزام میں گرفتار کیا گیا تھا جو بعد ازاں پولیس کی حراست میں ہلاک ہو گئی تھیں۔
نیلوفر حمیدی کو، جو مقبول اصلاح پسند اخبار شرق‘ کے لیے رپورٹنگ کرتی ہیں، 20 ستمبر کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ اس اسپتال میں گئیں جہاں مہساامینی کو لے جایا گیا تھا۔
محمدی، اصلاح پسند روزنامہ ھم میھن ‘کی رپورٹر الاھے محمدی کو 29 ستمبر کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ جنازے کی کوریج کے لیے امینی کے آبائی شہر جا رہی تھیں۔
ایران نے احتجاجی مظاہروں کا جواب بڑے پیمانے پر گرفتاریوں سے دیا ہے۔ عدلیہ کے مطابق، دو ہزار سے زیادہ افراد پر فرد جرم عائد کی گئی ہے، جن میں سے نصف کا تعلق تہران سے ہے۔
ایران میں گرفتاریوں پر نظر رکھنے والی تنظیم ’کمیٹی ٹو پروٹیکٹ جرنلسٹس ‘(سی پی جے) کے مطابق منگل تک زیر حراست صحافیوں کی تعداد 60 سے زیادہ ہو چکی ہے۔ ان میں سے کچھ کو بعد میں ضمانت پر رہا کر دیا گیا۔ لیکن نئی گرفتاریاں اب بھی جاری ہیں۔
Le giornaliste iraniane Niloufar Hamedi e Elaheh Mohammadi, in carcere da un mese dopo avere coperto le proteste, sono state accusate di "collusione per crimini contro la sicurezza nazionale" e "propaganda". Avevano trattato il caso di Mahsa Amini. #ANSA https://t.co/VrUZ5htnar
— Agenzia ANSA (@Agenzia_Ansa) November 8, 2022
“سی پی جے کی صدر جوڈی گینزبرگ نے ایک بیان میں کہا کہ صحافیوں کی گرفتاریوں کی رفتار نے ’حیرت انگیز طور پرایک مختصر وقت میں ایران کو دنیا میں صحافیوں کو جیل میں ڈالنے والےسب سے بڑے ملکوں میں شامل کر دیا ہے۔ ایرانی حکام ملک کی تاریخ کے ایک نازک لمحے کو خاموش کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
اقوام متحدہ میں ایران کے مشن نے تبصرہ کرنے کی درخواست سے متعلق وی او اے کی ای میل کا جواب نہیں دیا۔
ایران میں صحافیوں کو شدید خطرات کے پیش نظر، پیرس میں قائم، رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے نوبیل امن انعام یافتہ شیریں عبادی کے ساتھ مل کر ایک ہیلپ ڈیسک بنایا ہے۔
پراجیکٹ کا اعلان کرتے ہوئے، رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز نے کہا کہ ہیلپ ڈیسک ڈیجیٹل سپورٹ دے گا اور اس میں فارسی زبان کا سیکشن شامل ہوگا۔
شیریں عبادی نے، جو 2003 میں نوبیل امن انعام حاصل کرنے والی اسلامی دنیا کی پہلی خاتون تھیں، رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز کے ایک بیان میں کہا، ’اس حساس صورت حال میں ایرانی صحافیوں اور ایران میں جو کچھ ہو رہا ہے اس کی رپورٹنگ میں ان کا کام ضروری ہے۔ وہ عوام کی آواز بننے کے لیے اپنی جان خطرے میں ڈال رہے ہیں۔‘
تنظیم کے سیکریٹری جنرل کرسٹوف ڈیلوئر نے کہا کہ یہ نگرانی کرنے والا ادارہ میڈیا کو ’اپنے کام کو جس قدر ممکن ہو محفوظ طریقے سے انجام دینے کے لیے ضروری ٹولز اور مدد فراہم کر رہا ہے تاکہ انہیں کچھ تحفظ فراہم کیا جا سکے اور ان کے کام میں دخل اندازی کو کم کیا جا سکے۔‘
احتجاج کی کوریج پر ملک سے باہر کام کرنے والے ایرانی صحافیوں کو بھی خطرہ ہے۔سی پی جے نے منگل کو برطانوی حکام سے، لندن میں قائم ایک فارسی زبان کے نیوز ٹی وی چینل، @IranIntl_En کےعملے کے ارکان کا تحفظ مضبوط بنانے کے لیے کہا اور اپیل کی کہ وہ ایرانی حکام کو جوابدہ ٹھہرائیں۔
CPJ on Tuesday asked British authorities to strengthen their protection of threatened staff members of @IranIntl_En, a Persian-language news TV channel based in London, and demanded that they hold Iranian authorities accountable for transnational crimes. https://t.co/c5bLd90FLl
— Committee to Protect Journalists (@pressfreedom) November 8, 2022
رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرزکے مطابق، کم از کم 17 خواتین صحافیوں کو حراست میں لیا گیا ہے۔
شمالی کوریا اور اریٹیریا کے بعد ایران میں میڈیا کی آزادی کا تیسرا بدترین ریکارڈ ہے۔ یہ ملک صحافت کے لیے بہترین حالات رکھنے والے ملکوں کے، رپورٹرز ودآؤٹ بارڈرزکے پریس فریڈم انڈیکس میں، 180 ممالک میں 178 ویں نمبر پر ہے۔