تل ابیب (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/اے پی) اسرائیل نے مقبوضہ مغربی کنارے کے دو مقامات پر ایسے روبوٹک ہتھیار نصب کیے ہیں، جو فلسطینی مظاہرین پر آنسو گیس، اسٹن گرینیڈ اور ربڑ کی گولیاں فائر کر سکتے ہیں۔ مصنوعی ذہانت والے یہ ہتھیار اپنے ہدف خود تلاش کرتے ہیں۔
نیوز ایجنسی اے پی کی رپورٹوں کے مطابق یہ روبوٹک ہتھیار ایک پرہجوم فلسطینی پناہ گزین کیمپ اور مغربی کنارے کے ایک مرکزی فلیش پوائنٹ پر نصب کیے گئے ہیں۔ یہ ہتھیار مصنوعی ذہانت کا استعمال کرتے ہوئے اپنا ہدف خود تلاش کرتے ہیں۔ اسرائیلی حکومت کا کہنا ہے کہ ان جدید ہتھیاروں کی تنصیب سے اسرائیلی اور فلسطینی جانوں کو بچایا جا سکے گا۔
لیکن ناقدین کے مطابق یہ اسرائیلی کی طرف سے حقیقتی معنوں میں کیا جانے والا ایسا اقدام ہے، جس میں اسرائیل اپنے فوجیوں کو نقصان دہ راستے سے دور رکھتے ہوئے فلسطینیوں کو ہر لحاظ سے کنٹرول کرے گا۔ اسرائیل کی جانب سے یہ نئے ہتھیار ایک ایسے وقت میں متعارف کروائے گئے ہیں، جب مقبوضہ مغربی کنارے میں 2006 ء کے بعد رواں برس بدامنی کے بدترین واقعات رونما ہوئے ہیں۔
اسرائیل کے حالیہ انتخابات میں سابق وزیر اعظم بینجمن نیتن یاہو کے انتہائی دائیں بازو والے اتحاد کی کامیابی کے بعد مزید تشدد کے خدشات میں اضافہ ہو گیا ہے۔
یہ روبوٹک ہتھیار کیسے کام کر رہے ہیں؟
دو بڑے ٹاور ہیں، جہاں دوربین جیسے لینز ہیں اور آٹومیٹک بندوقیں نصب ہیں۔ مقبوضہ مغربی کنارے کے العروب مہاجر کیمپ کے قریب بڑے ٹاور پر جاسوس کیمرے بھی نصب ہیں۔ عینی شاہدین کا کہنا ہے کہ جونہی فلسطینی مظاہرین اسرائیلی فوجیوں پر پتھراؤ کرتے اور فائر بم پھینکتے ہوئے سڑکوں پر آتے ہیں تو یہ روبوٹک ہتھیار خود کار طریقے سے ان پر آنسو گیس پھینکنا یا ربڑ کی گولیاں چلانا شروع کر دیتے ہیں۔
تقریباً ایک ماہ قبل اسرائیلی فوج نے ایسا ہی ایک روبوٹک ہتھیار ہیبرون میں بھی نصب کیا تھا، جہاں اسرائیلی فوجیوں کی اکثر پتھر پھینکنے والے فلسطینی باشندوں سے جھڑپیں ہوتی ہیں۔ اسرائیلی فوج نے اس نظام کو مغربی کنارے میں کہیں اور بھی تعینات کرنے کے اپنے منصوبوں پر تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔
فلسطینی کارکن عیسیٰ عمرو کے مطابق ہیبرون کے رہائشیوں کو خدشہ ہے کہ ممکنہ طور پر کشیدہ حالات میں اس نئے ہتھیار کا غلط استعمال یا اسے ہیک کیا جا سکتا ہے۔ عیسیٰ عمرو کے مطابق لوگ یہ بھی کہتے ہیں یہ شہریوں پر ہتھیاروں کا تجربہ ہے۔ ان کا مزید کہنا تھا، ”ہم اسرائیلی کمپنیوں کے لیے کوئی تربیت گاہ نہیں ہیں۔ یہ ایک نئی چیز ہے جسے روکنا ضروری ہے ‘‘۔
ان مشینوں کے قریب کوئی سپاہی بھی موجود نہیں ہوتا بلکہ ان ہتھیاروں کو ریموٹ کنٹرول سے چلایا جاتا ہے۔ ٹیچ سکرین پر ایک بٹن دبانے سے پہلے سے منتخب شدہ اہداف کو باآسانی نشانہ بنایا جا سکتا ہے۔
اسرائیلی فوج کا کہنا ہے کہ ابھی اس سسٹم کا تجربہ کیا جا رہا ہے اور یہ مشینیں صرف ایسے ”غیر مہلک‘‘ ہتھیاروں کو فائر کرتی ہیں، جو ہجوم کو کنٹرول کرنے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ مثال کے طور پر ربڑ کی گولیاں اور آنسو گیس وغیرہ۔
فلسطینی دکاندار حسین المزین کا کہنا تھا، ”ہم کھڑکی نہیں کھولتے، ہم دروازہ نہیں کھولتے۔ ہمیں بس یہ پتا ہے کہ کوئی دروازہ کھلا نہیں رکھنا‘‘۔
روبوٹک ہتھیاروں کا بڑھتا ہوا استعمال
دنیا بھر میں روبوٹک ہتھیاروں کا استعمال تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اسی طرح یوکرین سے لے کر ایتھوپیا تک مہلک ہتھیاروں والے ڈرونز کا استعمال بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ مغربی کنارے میں اسرائیلی نظام جیسے ریموٹ کنٹرول ہتھیار امریکہ نے عراق میں استعمال کیے تھے۔ اسی طرح جنوبی کوریا اپنے ہمسایہ ملک شمالی کوریا کی سرحد پر ایسے ہتھیار استعمال کر رہا ہے جبکہ شام کے متعدد باغی گروپوں نے بھی ایسے ہی ہتھیاروں کا استعمال کیا تھا۔
اسرائیل کے جدید جنگی ہتھیار
اسرائیل اپنی جدید فوجی ٹیکنالوجی کے حوالے سے مشہور ہے اور اس کا شمار دنیا میں ڈرون تیار کرنے والے ایسے ممالک میں ہوتا ہے، جن کے میزائل اپنے ہدف کو انتہائی درستی کے ساتھ نشانہ بناتے ہیں۔ اس ملک نے غزہ پٹی کے ساتھ ساتھ اپنی حدود میں ایسی باڑ لگا رکھی ہے، جو ریڈار کے ساتھ ساتھ زیر زمین اور پانی کے اندر کام کرنے والے سینسرز سے بھی لیس ہے۔
اسی طرح اسرائیل زمین کے اوپر ایسی روبوٹک گاڑیوں کا استعمال کر رہا ہے، جو سرحدوں پر گشت کرنے کے لیے کیمروں اور مشین گنوں سے لیس ہیں۔ اسرائیلی فوج نگرانی کے لیے جدید ترین ٹیکنالوجی کی جانچ بھی کر رہی ہے اور اسے استعمال بھی کرتی ہے۔ مثال کے طور پر چہرے کی شناخت والا سسٹم اور فلسطینیوں کا بائیو میٹرک ڈیٹا بھی جمع کیا جا رہا ہے۔
انسانی حقوق کے اسرائیلی گروپ بتسلیم سے منسلک ڈروئر سادوٹ کہتی ہیں، ”اسرائیل شہری آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے ٹیکنالوجی کا استعمال کر رہا ہے‘‘۔
پاؤل شرے واشنگٹن کے تھنک ٹینک سینٹر فار اے نیو امریکن سکیورٹی کے نائب صدر ہیں اور وہ امریکی فوج کے سابق سنائپر بھی رہ چکے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ خودکار نظام جذبات کے بغیر اور بہتر مقصد کے ساتھ ممکنہ طور پر تشدد کو کم کر سکتے ہیں۔
تاہم وہ کہتے ہیں کہ بین الاقوامی اصولوں کی عدم موجودگی میں ”قاتل روبوٹس‘‘ ایک سنگین مسئلہ ہیں۔ ان کے مطابق اگر بین الاقوامی قوانین نہ بنائے گئے تو وہ وقت دور نہیں، جب ایسے خودکار نظام مہلک ہتھیاروں سے لیس ہوں گے۔