اسلام آباد (ویب ڈیسک) عدالت عظمیٰ کے حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ جامعہ حفصہ بھی درحقیقت کسی کی نجی ملکیت نہیں تھا اور کمشنر اسلام آباد کے مطابق حکومتی زمین پر قبضہ کر کے تعمیر کیا گیا تھا۔
تفصیلات کے مطابق سپریم کورٹ نے لال مسجد آپریشن کیس کی 12 مارچ کو سماعت کا حکم نامہ جاری کردیا، عامر احمد علی بطور چیئرمین سی ڈی اے اسلام آباد عدالت میں پیش ہوئے اور ان کی موجودگی میں عدالت میں 2 اکتوبر2007 کا حکم نامہ پڑھا گیا۔
عدالتی حکم کے مطابق سی ڈی اے نے اسلام آباد راولپنڈی کے طالب علموں کے لیے مدرسے کی تعمیر کرنا تھی تاہم حکم میں کہیں نہیں کہا گیا کہ سی ڈی اے مدرسہ کی زمین کسی شخص کو دے گا بلکہ عدالتی حکم کے مطابق زمین سی ڈی اے کی ہی رہے گی۔
حکم نامے میں کہا گیا ہے کہ اس ضمن میں اٹھائے گئے اقدامات عدالتی حکم سے مطابقت نہیں رکھتے، بظاہر ایچ الیون کی 20 کنال زمین میں کچھ نجی مفاد کو پیدا کردیا گیا ہے، چیف کمشنر اسلام آباد عدالتی حکم پر اس کی روح کے مطابق عمل کریں، عدالتی حکم پر عمل درآمد رپورٹ جمع کروائیں اور اس ضمن میں ہونے والے غلط اقدام کی تصیح بھی کریں۔
سپریم کورٹ کا کہنا ہے کہ جامع حفصہ بھی درحقیقت کسی کی نجی ملکیت نہیں تھا، بلکہ کمشنر اسلام آباد کے مطابق حکومتی زمین پر قبضہ کر کے تعمیر کیا گیا تھا، لہذٰا حکومتی زمین پر بننے والے ہاسٹل اور مدرسہ کو صرف حکومتی نامزد شخص کو ہی چلانا چاہیے۔
عدالت نے حکم دیا کہ چار ہفتوں میں مدرسہ کی تعمیر اور سائٹ پلان پر مشتمل رپورٹ جمع کروائی جائے اور اسلام آباد انتظامیہ لال مسجد آپریشن میں لاپتا ہونے والے محمد علی اور محمد طاہر سے متعلق رپورٹ پیش کرے جب کہ ایڈووکیٹ جنرل اسلام آباد دونوں بچوں کے حوالے تفصیلات عدالت اور والدین کو فراہم کریں۔