اسلام آباد (ڈیلی اردو/وی او اے) سپریم کورٹ آف پاکستان کے حکم کے بعد کینیا میں قتل ہونے والے صحافی ارشد شریف کیس کی ایف آئی آر درج کر لی گئی ہے۔
منگل کو اسلام آباد کے تھانہ رمنا کے ایس ایچ او رشید احمد کی مدعیت میں درج ہونے والی اس ایف آئی آر میں خرم احمد، وقار احمد اور طارق وصی کو نامزد کیا گیا ہے۔
واضح رہے کہ منگل کو سپریم کورٹ نے کینیا میں ہلاک ہونے والے پاکستانی صحافی ارشد شریف کیس میں منگل کی رات تک ہی ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دیا تھا۔
سپریم کورٹ کا ارشد شریف کیس میں ایف آئی آر درج کرنے کا حکم
سپریم کورٹ آف پاکستان نے کینیا میں ہلاک ہونے والے پاکستانی صحافی ارشد شریف کیس میں منگل کی رات تک ایف آئی آر درج کرنے کا حکم دے دیا ہے۔
منگل کو چیف جسٹس آف پاکستان عمر عطا بندیال نے ارشد شریف کیس میں ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران مقتول کی میڈیکل رپورٹ غیر تسلی بخش قرار دے دی۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ صحافی قتل ہوا ہے، لہذٰا حقائق سامنے آنے چاہئیں کہ کس نے قتل کیا۔ کینیا میں پاکستانی حکومت کو رسائی حاصل ہے۔تحقیقاتی رپورٹ تک رسائی بھی سب کا حق ہے۔
چیف جسٹس نے حکم دیا کہ ارشد شریف قتل کیس کی تحقیقاتی رپورٹ بھی آج ہی عدالت میں جمع کرائی جائے۔
وائس آف امریکہ کے نمائندے عاصم علی رانا کے مطابق چیف جسٹس نے صحافی ارشد شریف کی کینیا میں ہلاکت پر آج ہی ازخود نوٹس لیتے ہوئے پانچ رُکنی بینچ تشکیل دیا تھا۔
بینچ میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس جمال خان مندوخیل، جسٹس مظاہر علی اکبر نقوی اور جسٹس محمد علی مظہر بھی شامل ہیں۔
کیا یہ درست ہے کہ قتل کا مقدمہ نہ کینیا اور نہ ہی پاکستان میں درج ہوا؟ جسٹس اعجاز الاحسن کا سوال
ارشد شریف قتل کیس پر ازخود نوٹس کی سماعت کے دوران بینچ میں شامل جج جسٹس اعجاز الاحسن نے سوال اُٹھایا کہ کیا یہ درست ہے کہ ارشد شریف قتل کیس کا مقدمہ نہ تو کینیا اور نہ ہی پاکستان میں درج ہوا؟ ہماری معلومات کے مطابق اس کیس کا کوئی مقدمہ درج نہیں ہوا۔
اس پر سیکریٹری خارجہ نے جواب دیا کہ پاکستان میں تو مقدمہ درج نہیں ہوا، تاہم کینیا سے معلومات لے کر عدالت کو آگاہ کریں گے۔ عدالت نے دفتر خارجہ سے کینیا میں تحقیقات اور مقدمہ درج ہونے سے متعلق بدھ تک جواب مانگ لیا۔
چیف جسٹس نے بھی سوال اُٹھایا کہ ارشد شریف کے قتل کا مقدمہ درج کیوں نہیں ہوا؟
سیکریٹری داخلہ نے جواب دیا کہ فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ کا جائزہ لے کر مقدمہ درج کرنے کا فیصلہ ہوگا۔ اس پر جسٹس مظاہر نقوی نے استفسار کیا کہ کیا یہ مقدمہ درج کرنے کا قانونی طریقہ ہے؟
جسٹس اعجاز الاحسن نے ریمارکس دیے کہ مقدمہ درج کیے بغیر تحقیقات کیسے ہو سکتی ہیں؟
سپریم کورٹ نے حکومت کو منگل کو ہی فیکٹ فائنڈنگ رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیتے ہوئے سماعت بدھ تک ملتوی کر دی۔
صحافی سچ کی آواز ہیں، ارشد شریف نام ور صحافی تھے: چیف جسٹس عمر عطا بندیال
سماعت کے دوران چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے ریمارکس دیے کہ یہ انسانی زندگی کا معاملہ ہے، ارشد شریف نام ور صحافی تھے۔ صحافی ہی معلومات کا ذریعہ ہیں۔
چیف جسٹس نے سیکریٹری خارجہ اسد مجید کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ سیکریٹری خارجہ صاحب آپ ویسے ہی بہت مقبول ہیں، عوام کو اس قتل سے متعلق بہت سے خدشات ہیں، اس کیس میں حقائق کو سامنا لانا ہو گا۔
چیف جسٹس کا ارشد شریف قتل کیس کا ازخود نوٹس
سپریم کورٹ کے جاری اعلامیے کے مطابق چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے صحافی ارشد شریف کے کینیا میں بیہمانہ قتل کا از خود نوٹس لیا ہے۔
اعلامیے کے مطابق ملک کی صحافی برادری اور بڑے پیمانے پر عوام کی جانب سے ارشد شریف کے قتل پر خدشات کا اظہار اور اعلیٰ عدالت سے تحقیقات کا مطالبہ کیا جا رہا تھا۔
چیف جسٹس نے از خود نوٹس لیتے ہوئے سیکریٹری داخلہ، سیکریٹری خارجہ، سیکریٹری اطلاعات، وفاقی تحقیقاتی ادارے ( ایف آئی اے )کے ڈائریکٹر جنرل، ڈائریکٹر جنرل انٹیلی جنس بیورو اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے صدر کو نوٹس جاری کرتے ہوئے منگل کو ہی دن ساڑھے بارہ بجے طلب کر لیا ہے۔
اس معاملے کی سماعت کے لیے چیف جسٹس کی سربراہی میں پانچ رکنی لارجر بینچ تشکیل دیا ہے۔