پشاور (ڈیلی اردو/وی او اے) صوبہ خیبرپختونخوا کے شہر مردان میں انسدادِ دہشت گردی عدالت نے توہینِ مذہب کے ایک اور ملزم کو سزائے موت سنا دی ہے۔ ایک ہفتے کے دوران توہینِ مذہب کیسز میں دو ملزمان کو موت کی سزا سنائی جا چکی ہے۔
انسانی حقوق کے کارکنوں نے توہینِ مذہب کیسز میں سزائے موت سنانے کے رجحان پر تشویش کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مذہبی انتہا پسندی، معاشی مسائل اور دیگر وجوہات کو توہینِ مذہب کے الزام عائد کر کے استعمال کیا جاتاہے۔
چارسدہ کے رہائشی معروف گل کے خلاف مقدس ہستیوں کی شان میں گستاخی کے الزامات کے تحت 2020 میں مقدمہ درج ہوا تھا۔ بدھ کو انسدادِ دہشت گردی عدالت نے مقدمے کی کارروائی مکمل کر کے معروف گل کو پھانسی کی سزا دینے کا حکم سنایا۔ مجرم کو 13 سال قید بامشقت اور ساڑھے چار لاکھ روپے جرمانہ بھی عائد کیا گیا ہے۔
سماعت کے موقع پر شہریوں کی بڑی تعداد عدالت کے احاطے میں موجود تھی۔
اس سے قبل پشاور کی انسدادِ دہشت گردی عدالت نے توہینِ مذہب کے ملزم ثناء اللہ کو سزائے موت سنائی تھی۔
ثناء اللہ کے خلاف 23 فروری 2021 میں توہینِ مذہب کا مقدمہ درج کیا گیا تھا۔ ملزم پر الزام تھا کہ اس نے وٹس ایپ گروپ میں پیغمبرِ اسلام اور دیگر مقدس ہستیوں کے توہین آمیز خاکے شیئر کیے جس پر کروڑوں مسلمانوں کی دل آزاری ہوئی۔
ایف آئی اے نے کارروائی کرتے ہوئے ملزم کو گرفتار کر لیا اور توہینِ مذہب قانون کی مختلف دفعات کے تحت مقدمہ درج کر کے چالان عدالت میں جمع کرایا۔
انسانی حقوق کے تحفظ کے لیے سرگرم کارکن اور پشاور ہائی کورٹ کے سابق جج جسٹس (ر) شیر محمد خان کہتے ہیں کہ بڑھتے ہوئے معاشی مسائل اور نفسیاتی مسائل کی وجہ سے توہینِ مذہب کے مقدمات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ اس طرح کے واقعات معاشرے میں عدم برداشت کے رجحان کو ظاہر کرتے ہیں۔ اُن کے بقول اس نوعیت کے حساس مقدات میں ملزم کو صفائی یا اپنے دفاع کے بھرپور مواقع نہیں ملتے۔
انسانی حقوق کے کارکن اور پشاور کے سینئر وکیل ہاشم رضا کہتے ہیں کہ گزشتہ پانچ دہائیوں کے دوران پاکستان میں مذہبی انتہا پسندی میں اضافہ دیکھا گیا ہے۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو کرتے ہوئے اُن کا کہنا تھا کہ افغانستان میں طالبان کے دوبارہ اقتدار میں آنے کے بعد خیبرپختونخوا سمیت ملک بھر میں توہینِ مذہب کے الزامات عائد کرنے کے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے۔
اُن کا کہنا تھا کہ بعض صورتوں میں یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ طاقت ور حلقے اپنے مخالفین کے خلاف بھی اس قسم کے الزامات عائد کر کے انہیں سیاسی اور سماجی طور پر تنہا کر دیتے ہیں۔