لندن (ڈیلی اردو/وی او اے) ایک روہنگیا تنظیم کے سربراہ نے اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل سے مطالبہ کیا ہے کہ وہ فوری طور پرمیانمار میں روہنگیاز کے خلاف نسل کشی کو روکے۔ برمی روہنگیا آرگنائزیشن (بروک) یو کے، کے صدر تن کھن نے وائس آف امریکہ کو بتایا کہ میانمار کے صوبے راکھین میں روہنگیا مسلمانوں کونسل کشی کے ایک ایسے سلسلے کا سامنا ہے جس سے ان کی بقا کو خطرہ لاحق ہے۔
I told at the panel in the Hauge about @brouklondon UJ case yesterday: In Dec2019 @brouklondon took the bold decision to file a criminal complaint in Argentina under principle of universal jurisdiction for the Genocide against #Rohingya, during the attacks in 2012,2016 and 2017. pic.twitter.com/X2hPbMVz5l
— Tun Khin (@tunkhin80) December 7, 2022
اگست اور ستمبر کے درمیان لاکھوں روہنگیا زبے گھر ہوئے اور شواہد ان سے لگتا ہے کہ 2016-17 کےوہی حالات اور واقعات دہرائے جا رہے ہیں جب ظلم و ستم کے شکار لاکھوں روہنگیا مسلمانوں کو ان کے ملک میانمار سے نکال دیا گیا تھا۔
"I´m not a lawyer, but as a Rohingya activist I understand the extraordinary challenges to seek justice for the Genocide against our community, and the idea that all efforts in this direction complement each other is very clear." Our President @tunkhin80 set out in this seminar. https://t.co/wIMebyk3UY
— Burmese Rohingya Organisation UK – BROUK (@brouklondon) December 7, 2022
جون میں، نیویارک میں قائم ہیومن رائٹس واچ نے ایک رپورٹ شائع کی جس میں اس نے میانمار کے حکام کی جانب سے نسل پرستی، ظلم و ستم اور قید میں رکھنے جیسے “انسانیت کے منافی جرائم کی تفصیل بیان کی ہے جس نے روہنگیا اقلیت کو ان کی آزادی سے محروم کر دیا اور ان کی زندگی اور معاش کو خطرے میں ڈال دیا۔ ”
ہیومن رائٹس واچ کی رپورٹ کے مطابق ایک دہائی سے راکھین میں ایک لاکھ 35 ہزار سے زیادہ روہنگیا اور کمان مسلمانوں کو من مانے طور پر غیر معینہ مدت کے لیے حراست میں رکھا گیا ہے۔
برمی روہنگیا آرگنائزیشن بروک نے 2 دسمبر کو “ناقابل تصور کو روکیے” کے عنوان سے ایک رپورٹ شائع کی ہے، جس سے ایک ہفتہ پہلے میانمار سے توقع کی جارہی تھی کہ وہ بین الاقوامی عدالت انصاف (ICJ) کو ان مطالبات کی تعمیل پر رپورٹ کرے گا جو تقریباً تین سال قبل عدالت نے اس ملک سے کیے تھے۔
جنوری 2020 میں، عدالت نے میانمار کو حکم دیا تھاکہ وہ اپنی سرزمین پر روہنگیا اقلیت کے خلاف جاری نسل کشی کو روکنے کے لیے ایسے تمام اقدامات کرے جن میں تباہی اور بر بادی کو روکنا اور مبینہ کارروائیوں سے متعلق شواہد کے تحفظ کو یقینی بنانا شامل تھا۔
حکم نامے کے تحت، میانمار کو ہر چھ ماہ بعد آئی سی جے کو ان تمام اقدامات کے بارے میں اس وقت تک رپورٹ پیش کرنے کی ضرورت تھی جب تک کہ عدالت اس کیس کا حتمی فیصلہ نہیں کر دیتی، جس میں کئی سال لگ سکتے ہیں۔
عدالت کے حکم کی تعمیل میں، میانمار نے اپنی پہلی رپورٹ 22 مئی 2020 کو اور دوسری رپورٹ 23 نومبر 2020 کو پیش کی، جس کے بعد فوج نے آنگ سان سوچی کی جمہوری طور پر منتخب حکومت کا تختہ الٹ دیا۔
بین الاقوامی عدالت انصاف کی ٹائم لائن کے مطابق، میانمار کی حکومت کی تازہ ترین رپورٹ 23 نومبر 2022 کوپیش کی جانی تھی۔ تاہم نہ تو آئی سی جے اور نہ ہی برمی جنتا نے اس رپورٹ کے بارے میں کچھ بتایا ہے۔
بروک کی حالیہ رپورٹ پر میانمار کی حکومت کی طرف سے فوری طور پر کوئی ردعمل سامنے نہیں آیا۔ بین الاقوامی عدالت انصاف نے وی او اے نیوز کی جانب سے تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔
برمی روہنگیا آرگنائزیشن بروک کا دعویٰ ہے کہ میانمار کی فوج اور دیگر ادارے عارضی اقدامات کو نظر انداز کر رہے ہیں اور نسل کشی جاری ہے۔ رپورٹ میں روہنگیا کے خلاف گزشتہ چھ ماہ کے دوران کی جانے والی سنگین خلاف ورزیوں کو دستاویز کیا گیا ہے، جن میں قتل، جنسی تشدد اور گھروں، دیہاتوں اور مساجد پر گولہ باری شامل ہے۔
سینئر جنرل من آنگ ہلینگ کی سربراہی میں فوجی ہنتا نے روہنگیا مسلمانوں کے خلاف نسل کشی کے الزامات کی تردید کی ہے۔ اور مارچ 2021 میں، فوج نے آنگ سان سوچی کی جمہوری طور پر منتخب حکومت سے اقتدار لینے کے بعد، فوجی قیادت کے ترجمان میجر جنرل زاؤ من تون نے کہا تھا کہ “جرائم اہل کاروں نے انفرادی سطح پر کیے ہوں گے۔”
بروک کے صدر تون کھن نے کہا، “یہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی ذمہ داری ہے کہ وہ اقوام متحدہ کی عدالت کے فیصلے کو برقرار رکھے، لیکن وہ ایسا کرنے میں ناکام ہو رہی ہے۔
انہوں نے کہا برطانیہ، اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل، اور دیگر ممالک جو بین الاقوامی عدالت انصاف کےکیس میں شامل رہے ہیں، فوری طور پر سلامتی کونسل کا اجلاس بلائیں تاکہ میانمار کی فوج کی جانب سے عدالت کے فیصلےپر عمل کرنے میں ناکامی پر بات کی جا سکے۔
” اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل نے وی او اے نیوز کی جانب سے تبصرہ کرنے کی درخواست کا جواب نہیں دیا۔