جنیوا (ڈیلی اردو/اے ایف پی/رائٹرز) تقریباً 200 روہنگیا پناہ گزینوں پر مشتمل ایک کشتی ٹوٹنے کے بعد ایک ہفتے سے بھی زیادہ عرصے سے بحیرہ انڈمان میں بہہ رہی ہے۔ اقوام متحدہ نے جنوب مشرق ایشیائی ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ اس کشتی کو ڈوبنے سے بچا لیں۔
پناہ گزینوں سے متعلق اقوام متحدہ کی ایجنسی نے جنوب مشرقی ایشیائی ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ ان تقریباً 200 روہنگیا پناہ گزینوں کو بچائیں، جن کی کشتی گزشتہ ایک ہفتے سے بھی زیادہ وقت سے سمندر میں ٹوٹنے کے بعد سے بے یار و مددگار تیر رہی ہے۔
اقوام متحدہ کی ایجنسی (یو این سی ایچ آر) نے جمعرات کے روز ایک بیان میں کہا کہ اسے اطلاعات موصول ہوئی ہیں کہ یکم دسمبر کو روہنگیاؤں کی اس کشتی کا انجن فیل ہو گیا تھا اور تبھی سے روہنگیا پناہ گزیں تھائی لینڈ کے ساحل پر کشتی پر پھنسے ہوئے ہیں۔
ایجنسی نے اپنے بیان میں کہا ہے کہ ”کشتی میں سوار افراد کئی دنوں سے خوراک اور پانی کے بغیر ہیں اور پانی کی انتہائی قلت کا شکار ہیں۔”
اس نے مزید کہا کہ اس کے پاس ایسی غیر تصدیق شدہ معلومات بھی ہیں کہ ان مسائل کی وجہ سے بعض مہاجرین کی موت ہو گئی ہے۔
اس کا کہنا تھا، ”اگران لوگوں کو بچا کر کشتی سے اتارا نہیں گیا، تو آنے والے دنوں میں مزید ہلاکتوں کا خطرہ ہے۔”
خبر رساں ادارے رائٹرز نے انسانی حقوق کی تنظیم کے حوالے سے اطلاع دی ہے کہ یہ کشتی نومبر کے اواخر میں بنگلہ دیش سے نکلی تھی اور جنوبی تھائی لینڈ کے رنونگ کے ساحل کے پاس پہنچتے اس میں پانی بھرنا ہونا شروع ہو گیا۔
اس کے مطابق ”(ان کے پاس) کشتی پر کھانا اور پانی تقریباً ختم ہو چکا ہے” اور کشتی میں سوار مرد بڑی شدت سے برتن سے پانی نکالنے کی کوشش کر رہے تھے۔
یو این سی ایچ آر نے اس ماہ کے اوائل میں اطلاع دی تھی کہ روہنگیا پناہ گزینوں کی تعداد میں ”ڈرامائی” اضافہ ہوا ہے، جو میانمار اور بنگلہ دیش سے جنوب مشرقی ایشیائی ممالک کی جانب کشتیوں سے خطرناک سفر کر رہے ہیں۔
ایجنسی کا کہنا ہے،”بین الاقوامی انسانی حقوق کے قانون کے مطابق، سمندر میں پھنسے ہوئے لوگ، جب مصیبت میں ہوں، تو ان کو بچایا جانا چاہیے، اور ان کو محفوظ جگہ پر پہنچانا پڑتا ہے۔ جانوں کے تحفظ کے لیے فوری اقدامات کی ضرورت ہے۔”
میانمار کی فوج کے ڈر سے روہنگیا مسلمانوں کا فرار ہو کر دوسرے ممالک میں پناہ لینے کا سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ ایسے پناہ گزینوں کی ایک بڑی تعداد بنگلہ دیش کی سرحد پر کیمپوں میں زندگی بسر کر رہی ہے۔ اس میں سے بیشتر کاکس بازار کے کیمپوں میں ناگفتہ بہ حالت میں رہنے پر مجبور ہیں۔
میانمار کی راکھین ریاست میں فوجی کارروائی سن 2017 میں شروع کی گئی تھی، جسے اقوام متحدہ نسلی تطہیر سے تعبیر کرتا ہے۔ اب تک تقریباً دس لاکھ روہنگیاؤں نے اپنے گھروں کو چھوڑ کر پیدل اور کشتیوں کے ذریعے پڑوسی ملک بنگلہ دیش کا رخ کیا۔
میانمار حکومت کے مطابق فوجی کارروائی روہنگیا شدت پسندوں کے خلاف شروع کی گئی تھی تاہم اس دوران فوج پر تشدد، جنسی زیادتی اور قتل کے الزامات بھی عائد کے گئے۔ لیکن میانمار روہنگیا اقلیت کی اجتماعی عصمت دری اور ہلاکتوں جیسے تمام الزامات سے انکار کرتا رہا ہے۔