نئی دہلی (ڈیلی اردو/اے این آئی/وی او اے) بھارت کی شمال مشرقی ریاست اروناچل پردیش کے توانگ سیکٹر میں بھارت اور چین کی افواج کے درمیان لائن آف ایکچوؤل کنٹرول (ایل اے سی) پر تصادم ہوا ہے، جس کے نتیجے میں چند اہلکاروں کے زخمی ہونے کی اطلاعات بھی سامنے آئی ہیں۔
بھارت کی فوج کے ایک بیان کے مطابق پیپلز لبریشن آرمی (پی ایل اے) کے جوان توانگ سیکٹر میں ایل اے سی پر پہنچے جن کا مقابلہ بھارتی جوانوں نے مضبوط اور پر عزم انداز میں کیا۔ اس تصادم میں دونوں جانب کے فوجی جوان زخمی ہوئے۔
تاہم بھارتی فوج نے اپنے بیان میں زخمی ہونے والے فوجیوں کی تعداد واضح نہیں کی۔
ذرائع کے مطابق تصادم کے وقت بھارتی افواج کے کم از کم تین یونٹ موجود تھے جب کہ بھارتی جوانوں کے مقابلے میں زیادہ چینی جوان زخمی ہوئے ہیں۔
#BreakingNews | During a face off on December 9, Indian troops in the Tawang sector gave a befitting reply to the PLA troops.
In the clash, both sides sustained several injuries. pic.twitter.com/xxib7KqNkP
— DD India (@DDIndialive) December 12, 2022
بھارتی اخبار ‘انڈین ایکسپریس’ کی رپورٹ کے مطابق زخمی بھارتی جوان گوہاٹی کے ایک اسپتال میں زیر علاج ہیں۔
بعض میڈیا رپورٹس میں بتایا گیا ہے کہ ان میں سے کچھ کی ہڈیاں ٹوٹی ہیں۔
لداخ سیکٹر میں بھارت اور چین کی افواج کے درمیان ایل اے سی پر سرحدی کشیدگی اور تنازع جاری ہے۔
دونوں جانب سے سرحدی تنازع کو ختم کرنے کے لیے کمانڈرز سطح پر متعدد ادوار کے مذاکرات ہو چکے ہیں۔
فوج کے بیان کے مطابق توانگ سیکٹر میں ایل اے سی پر بعض مقامات ایسے ہیں جن کے بارے میں دونوں ملکوں میں اختلاف ہے اور ایل اے سی کے بارے میں دونوں کی رائے الگ ہے۔
یہاں 2006 کے بعد سے یہی صورتِ حال ہے جہاں دونوں افواج اپنی اپنی جانب گشت کرتی رہتی ہیں۔
بھارتی میڈیا رپورٹس کے مطابق اس واقعے میں چین کے کم از کم 200 جوان شامل رہے ہیں۔
چینی فوجی ایسے ڈنڈوں اور لاٹھیوں سے لیس تھے جن کے سِروں پر کیلیں لگی ہوئی تھیں۔
#WATCH | On India-China face-off in Tawang sector, BJP MP from Arunachal-East, Tapir Gao says, "…I heard that a few injuries were reported on Indian side but PLA suffered much more injuries…Indian soldiers at border won't budge even an inch…The incident is condemnable…" pic.twitter.com/H2G429ab1Z
— ANI (@ANI) December 13, 2022
فوج کے بیان میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ دونوں جانب کی افواج فوری طور پر پیچھے ہٹ گئیں۔ بعد ازاں دونوں افواج کے کمانڈرز نے سرحد پر قیامِ امن کے لیے فلیگ میٹنگ کی۔
یاد رہے کہ تصادم کا یہ حالیہ واقعہ لداخ میں وادی گلوان میں 15 جون 2020 کو دونوں ممالک کی افواج کے درمیان ہونے والے تصادم کے بعد پہلا واقعہ ہے۔
اس تصادم میں بھارت کے 20 جوان ہلاک ہوئے تھے جب کہ چین نے چار جوانوں کی ہلاکت کی تصدیق کی تھی۔
میڈیا میں فوجی ذرائع کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ اس بار چین کی فوج کی جانب سے منصوبہ بندی سے کارروائی کی گئی ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ جہاں تصادم ہوا وہ ایک گھنا جنگلی علاقہ ہے جہاں چین کی فوج سپلائی لائن اور انفرا اسٹرکچر کے ساتھ بلند مقامات پر قابض ہے۔
رپورٹس کے مطابق برف باری کے موسم کی وجہ سے بعض فوجی جوانو ں کو وہاں سے واپس آنا پڑا جس کی وجہ سے چین کو وہاں برتری حاصل ہو گئی ہے۔ جب کہ گہرے بادلوں کی وجہ سے بھارتی سیٹلائٹس فوجوں کی موجودگی کی تصویریں نہیں لے پائی۔
کانگریس رہنماؤں کی چین کو سخت جواب دینے کی اپیل
واقعے پر ردِ عمل کا اظہار کرتے ہوئے کانگریس نے ایک ٹوئٹ میں حکومت سے کہا ہے کہ وہ چین کو سخت لہجے میں سمجھائے کہ اس کی یہ حرکت برداشت نہیں کی جائے گی۔
Again our Indian Army soldiers have been provoked by the Chinese.
Our jawans fought in a resolute manner and a few of them have been injured too.
We are one with the nation on the issues of National Security and would not like to politicize it. But Modi Govt
should be honest..
1/— Mallikarjun Kharge (@kharge) December 12, 2022
کانگریس کی ایک اور ٹوئٹ میں کہا گیا ہے کہ وزیر اعظم نریندر مودی نے جب یہ بیان دیا تھا کہ چین بھارتی علاقے میں داخل نہیں ہوا ہے تو انہوں نے غلطی کی تھی۔ اگر انہوں نے یہ غلطی نہ کی ہوتی اور چین کا نام لینے سے نہ ڈرے ہوتے تو آج چین ہمارے ملک کی طرف آنکھ اٹھا کر نہیں دیکھتا۔
کانگریس کے ترجمان پون کھیڑا نے کہا کہ چینی صدر کو جھک کر سلام کرنے اور لال لال آنکھ دکھانے میں فرق ہوتا ہے۔
خیال رہے کہ یو پی اے حکومت کے دوران نریندر مودی نے ایک بار کہا تھا کہ بھارتی حکومت کو چین کو لال لال آنکھیں دکھا کر بات کرنی چاہیے۔
پون کھیڑا کے مطابق چین نے اروناچل پر نظر ڈالی ہے، کل کو وزیر اعظم اپنی ساکھ بچانے کے لیے پھر چین کو کلین چٹ دے دیں گے۔
کانگریس کے دیگر رہنماؤں نے بھی اپنی ٹوئٹ میں حکومت سے چین کو سخت جواب دینے کی اپیل کی ہے۔
آل انڈیا مجلس اتحاد المسلمین کے صدر اور حیدرآباد سے رکن پارلیمان اسد الدین اویسی نے ایک ٹوئٹ میں سوال کیا کہ اس وقت جب کہ پارلیمنٹ کا اجلاس چل رہا ہے وزیر اعظم نے پارلیمنٹ کو اس کی اطلاع کیوں نہیں دی؟
China isn't allowing us to patrol, there're clashes but Modi govt is silent. Clashes happened on Dec 9 but we came to know about it on Dec 12 despite a functioning Parliament. It's a weak political leadership of PM Modi, he's scared to take the name of China: AIMIM chief pic.twitter.com/pxPFJ7sOj9
— ANI (@ANI) December 12, 2022
ان کے مطابق مودی کی کمزور قیادت کی وجہ سے چین کے سامنے بھارت کو خفت اٹھانا پڑتی ہے۔
انہوں نے کہا کہ اس معاملے پر پارلیمنٹ میں بحث ہونی چاہیے۔ انہوں نے ایوان میں تحریک التوا پیش کرنے کا عندیہ دیا۔
دریں اثنا چین نے اپنے ردِ عمل میں کہا ہے کہ توانگ سیکٹر میں دونوں ممالک کی افواج کے درمیان تصادم کے بعد سرحد پر حالات مستحکم ہے۔
میڈیا رپورٹس کے مطابق چین کی وزارتِ خارجہ کے ترجمان وانگ وینبن نے کہا کہ فریقین نے سفارتی اور فوجی چینلز کے ذریعے سرحدی مسئلے پر بات چیت کی ہے۔
ادھر بھارت کے وزیرِ دفاع راج ناتھ سنگھ نے پارلیمنٹ میں بیان دیتے ہوئے کہا کہ بھارت نے اس معاملے کو سفارتی سطح پر چین کے سامنے اٹھایا ہے۔
انہوں نے کہا کہ چین نے توانگ سیکٹر میں موجودہ صورت حال کو تبدیل کرنے کی کوشش کی، جس کا بھارتی جوانوں نے جواب دیا اور چینی جوانوں کو واپس جانے پر مجبور کیا۔
ان کے مطابق اس جھڑپ میں دونوں جانب کے کچھ فوجی زخمی ہوئے البتہ کوئی جانی نقصان نہیں ہوا۔ فریقین کے مقامی کمانڈرز نے 11 دسمبر کو فلیگ میٹنگ کی۔ چین کو اس معاملے پر انتباہ کیا گیا اور سرحد پر امن امان کے قیام کا کہا گیا۔
قبل ازیں انہوں نے تینوں مسلح افواج کے سربراہوں کے ساتھ ایک اعلیٰ سطح کا اجلاس کیا جس میں وزیرِ خارجہ ایس جے شنکر، قومی سلامتی کے مشیر اجیت ڈوول، چیف آف ڈیفنس اسٹاف اور سیکریٹری خارجہ بھی موجود تھے۔
دوسری جانب حزبِ اختلاف کے ارکان نے پارلیمنٹ میں اس معاملے کو اٹھایا اور چین کے خلاف سخت کارروائی کا مطالبہ کیا۔
انہوں نے اس معاملے پر پارلیمنٹ میں بحث کرانے کا مطالبہ کرتے ہوئے ہنگامہ کیا، جس کی وجہ سے ایوان کی کارروائی ملتوی کرنی پڑی۔
اسی دوران وزیرِ داخلہ امت شاہ نے پارلیمنٹ کے باہر میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے الزام عائد کیا کہ کانگریس کے ارکان نے لوک سبھا میں وقفے کے دوران اس معاملے کو اس لیے اٹھایا تاکہ راجیو گاندھی فاؤنڈیشن کو چین اور متنازع اسلامی اسکالر ذاکر نائیک سے ملنے والی رقوم پر سوالات سے بچ سکیں۔
ان کے مطابق راجیو گاندھی فاؤنڈیشن کو نئی دہلی میں چین کے سفارت خانے سے ایک کروڑ روپے اور ذاکر نائیک سے 50 لاکھ روپے ملے تھے۔ اس کے بعد فاؤنڈیشن کا ایف سی آر اے رجسٹریشن منسوخ کیا گیا تھا۔
انہوں نے یہ بھی الزام لگایا کہ اقوامِ متحدہ کی سلامتی کونسل میں بھارت کو مستقل رکنیت مل رہی تھی لیکن اس وقت کے وزیرِ اعظم جواہر لعل نہرو نے چین کی محبت میں اس کی قربانی دے دی اور مستقل رکنیت چین کو مل گئی۔
انہوں نے مزید کہا کہ کانگریس کے دورِ حکومت میں چین نے بھارت کی زمینوں پر قبضہ کیا لیکن جب تک مرکز میں نریندر مودی کی حکومت ہے چین ایک انچ زمین پر بھی قبضہ نہیں کر سکتا۔