اسلام آباد (ڈیلی اردو/وی او اے) ”میں لاشوں کے چہروں سے کفن ہٹاتی جاتی تھی اور ہر لاش دیکھنے کے بعد شکر کرتی تھی کہ یہ میرا اسفند نہیں ہے۔ لیکن پھر وہ لمحہ آ ہی گیا جب ان لاشوں کے درمیان میرا اسفند لیٹا ہوا تھا۔”
یہ الفاظ ہیں سانحہ آرمی پبلک اسکول (اے پی ایس) میں ہلاک ہونے والے اسفند یار اجون کی والدہ شاہانہ اجون کے، جو اس واقعے کے آٹھ برس گزرنے کے بعد بھی اس درد اور تکلیف سے باہر نہیں آسکی ہیں۔ اپنے بیٹے اسفند کا ذکر آتے ہی ان کی آنکھیں نم ہو جاتی ہیں۔
پشاور کے آرمی پبلک اسکول میں 16 دسمبر 2014 کو پیش آئے واقعے میں ہلاک ہونے والے بچوں کے والدین آج بھی اسی کرب سے گزر رہے ہیں جو آج سے آٹھ سال قبل تھا۔
آٹھ سال قبل آرمی پبلک اسکول پشاور میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے دہشت گردوں نے حملہ کرکے 140 سے زائد افراد کو ہلاک کردیا تھا جن میں اکثریت طلبہ کی تھی۔
اس واقعے میں ملوث کچھ افراد کو اگرچہ سزائیں دی گئیں لیکن والدین اب بھی مطمئن نہیں ہیں۔ ان کا مطالبہ ہے کہ ان کے بچوں کو قتل کرنے والے افراد اور واقعے کے ذمہ داران کو انصاف کے کٹہرے میں لایا جائے۔
مبصرین کے مطابق ملک میں اس واقعے کے بعد بننے والے نیشنل ایکشن پلان پر اس کی روح کے مطابق عمل نہ ہونے سے آج بھی ہمیں دہشت گردی کے خطرات ہیں اور معاشرے میں انتہا پسندی بڑھتی جا رہی ہے۔
نیشنل ایکشن پلان کا کیا ہوا؟
پاکستان کے سابق وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ اس واقعے کے بعد ملک کی تمام سیاسی جماعتیں مل بیٹھی تھیں تاکہ مسقبل میں ایسا کوئی واقعہ نہ ہو۔
وائس آف امریکہ سے بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا نیشنل ایکشن پلان بننے کے بعد اس کے 20 نکات میں سے وہ نکات جن پر فوری عمل ہونا چاہیے تھا ان میں فوجی عدالتیں، کالعدم تنظیموں کے خلاف کارروائی اور دیگر اقدامات شامل تھے۔
انہوں نے کہا کہ پاکستان کے سابق وفاق کے زیرِ انتظام علاقے (فاٹا) کا انضمام بھی اسی مقصد کے تحت کیا گیا تھا کہ وہ نرسری جہاں دہشت گردی پروان چڑھتی ہے اسے ختم کیا جا سکے۔
شاہد خاقان عباسی کہتے ہیں کہ فوری نوعیت کے جو اقدامات تھے انہیں لینے سے بہتری آئی تھی۔ اس کا ایک مقصد معاشرے میں بہتری لانا اور لوگوں کی سوچ میں تبدیلی لانا بھی تھا۔ البتہ بدقسمتی سے ایسے اقدامات مکمل طور پر نہ ہو سکے۔
انہوں نے کہا کہ اس ایکشن پلان میں سب ادارے شامل تھے، جب بھی ایسے اقدامات کیے جاتے ہیں تو مزاحمت آتی ہے اور مجھے افسوس ہے کہ ہم سب شاید اس مزاحمت کا مقابلہ نہیں کرسکے۔
شاہد خاقان عباسی کے بقول آئین پر عمل نہ ہونا ہی سب سے بڑی وجہ ہے، جب ملکی اور غیر ملکی معاملات سامنے آتے ہیں تو ایسی چیزوں پر عمل درآمد ہونے سے رکتا ہے۔ ایسے وقت میں بعض ادارے جنہیں فوری طور پر ضرورت ہوتی ہے، وہ اپنے مفاد کے مطابق فیصلے کرتے ہیں۔
سیکیورٹی امور کے ماہر عامر رانا کہتے ہیں کہ یہ 20 نکاتی پلان تھا لیکن حکومتی شخصیات نے مل کر اسے 14 نکات کا کر دیا ہے۔ اس پلان میں یہ تبدیلی کیسے آئی کسی کو علم نہیں۔
انہوں نے کہا کہ ماضی میں نیشنل ایکشن پلان کو پوری سیاسی قیادت اور پارلیمان کی حمایت حاصل تھی۔ البتہ موجودہ پلان کو تبدیل کرنے سے اس کی اونر شپ ختم ہوگئی ہے۔
عامر رانا کے بقول انتہا پسندی بڑھنے کی وجہ یہ ہے کہ حکومت کو اپنی پالیسیوں کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے۔ ایک فریم ورک کی ضرورت ہے لیکن اب تک ایسا کچھ نہیں ہوا ہے۔
پاکستان کے نیشنل کاؤنٹر ٹیررازم اتھارٹی (نیکٹا) کے سابق سربراہ احسان غنی کہتے ہیں کہ کئی واقعات اے پی ایس سے پہلے بھی ہوئے جن میں زیادہ ہلاکتیں ہوئیں۔ لیکن اس سانحے میں بچوں کی ہلاکت نے پوری قوم کو اس پر متفق کر دیا کہ دہشت گردوں کا خاتمہ کیا جائے۔
‘بتایا جائے حکومت کن لوگوں سے مذاکرات کر رہی ہے’
واقعے میں جان کی بازی ہارنے والے ایک اور بچے علی محمد خان کی والدہ گلِ رعنا کہتی ہیں کہ میرے لیے جیسے وقت رک سا گیا ہے۔
ان کے بقول سانحے کوآٹھ سال گزر گئے۔ لیکن وہ آج بھی وہی کھڑی ہیں جب آٹھ سال قبل انہیں علی کا لاشہ ملا تھا۔
انہوں نے کہا کہ انہیں ہمیشہ ڈر لگتا تھا کہ کہیں ان کے بیٹے کو کچھ ہو نہ جائے۔ میں آج تک اس سوال کا جواب تلاش کر رہی ہوں کہ ان کے بیٹے کے ساتھ ایسا کیا ہوا۔
محمد علی خان کے والد شہاب الدین کہتے ہیں کہ آج حکومت کالعدم تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کی بات کر رہی ہے۔ لیکن پہلے ہمیں بتایا جائے کہ یہ کون لوگ ہیں۔
انہوں نے کہا کہ ہمیں بتایا گیا تھا کہ ان کا صفایا کر دیا گیا ہے۔ اگر ان کا صفایا کر دیا گیا ہے تو وہ کون لوگ ہیں جن سے مذاکرات ہو رہے ہیں۔
عدالتی کارروائی اور والدین کا مؤقف
سانحہ اے پی ایس کے بعد متاثرہ والدین نے انصاف کے حصول کے لیے سپریم کورٹ کا دروازہ کھٹکھٹایا اور اس معاملے کی سماعت میں عدالت نے سابق وزیرِ اعظم عمران خان کو طلب کیا۔
عدالت میں واقعے کے ذمہ داران کا تعین کرنے سے متعلق جب پوچھا گیا تو عمران خان نے کہا کہ عدالت حکم کرے تو اس کے مطابق کارروائی کی جائے گی۔ بعد ازاں عدالت نے حکم دیا کہ ذمہ داران کا تعین کرکے وزیرِ اعظم کی دستخط شدہ رپورٹ جمع کرائی جائے۔
اسفند یار کی والدہ کہتی ہیں کہ ”ان سات برسوں میں ہم نے کوئی دروازہ نہیں چھوڑا، چاہے حکومتیں ہو یا عسکری قیادت، یہاں تک کہ ہم نے اس میں سول سوسائٹی کے لوگوں تک کو شامل کیا۔ البتہ اس میں وہ لوگ ملوث تھے جو زمینوں کے خدا ہیں، ان کے خلاف آپ کچھ کہہ ہی نہیں سکتے۔”
گل رعنا کہتی ہیں کہ ہم پہلے دن سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ ہمارے بچوں کے خون کے چھینٹے ان لوگوں کے ہاتھوں پر ہیں جو اس کے ماسٹر مائنڈ ہیں۔ جن لوگوں نے خون بہایا ہے وہ تو ذمہ دار ہیں ہی لیکن یہ دہشت گرد یہاں تک کیسے پہنچے، ان کو روکنے والا کوئی نہیں تھا کیا؟
انہوں نے کہا کہ وہ لوگ جنہوں نے ان کو راستہ دیا، جو سہولت کار ہیں سب ذمہ دار ہیں، کسی نے آج تک کرسی نہیں چھوڑی، کسی کو سزا نہیں ہوئی۔
مقتول شبیرخان کے والد طاہر خان کہتے ہیں کہ جن لوگوں نے اس معاملہ کو قبول کیا موجودہ حکومت انہی سے مذاکرات کر رہی ہے۔
شاہانہ اجون کہتی ہیں کہ اس واقعے میں کالعدم تحریک طالبان پاکستان کے سابق ترجمان احسان اللہ احسان نے قبول کیا تھا کہ وہ سہولت کار تھا اور اس نے اس حملے کی ذمہ داری بھی قبول کی تھی لیکن ان کے بقول احسان اللہ احسان کو فرار کروا دیا گیا۔
گل رعنا کے مطابق جس دن انصاف ہو گا، اسی دن امن خود بخود آجائے گا۔ لیکن اگر انصاف نہیں ہوگا تو ہم جیسوں کے بچے قربان ہوتے رہیں گے۔
انہوں نے کہا کہ ہمارے بچوں نے قربانی دی نہیں ہے ان سے قربانی لی گئی ہے۔ کیوں کہ ان کے بیٹے کو نہیں پتا تھا کہ قربان ہونا کسے کہتے ہیں۔