کیا چین ایران کی علاقائی سالمیت پر سوال اٹھا رہا ہے؟

بیجنگ (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) چین نے خلیج فارس میں تین ایرانی جزیروں پر متحدہ عرب امارات کے دعوے کی حمایت کر دی ہے۔ اس حوالے سے ایران میں عوام اپنی ہی حکومت سے ناراض ہیں۔

چین نے اپنا ایک وفد تہران بھیجا ہے۔ چین کے سربراہ مملکت اور پارٹی رہنما شی جن پنگ کے سعودی عرب کے دورے کے بعد سے تہران اور بیجنگ حکومت کے مابین تعلقات کشیدہ ہیں۔ اپنے میزبان محمد بن سلمان کے ساتھ ایک مشترکہ بیان میں چینی صدر نے خلیج فارس میں عرب ممالک کا ساتھ دینے کا اعلان کیا اور اس طرح خلیج فارس میں تین ایرانی جزائر پر متحدہ عرب امارات کے دعوے کو بالواسطہ طور پر تسلیم کر لیا گیا ہے۔

برطانوی یونیورسٹی سوسیکس میں بین الاقوامی تعلقات کے پروفیسر کامران متین کا ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا، ”امارات کے دعوے کو تسلیم کرنا بہت ہی سیاسی اہمیت رکھتا ہے‘‘۔ ان کا مزید کہنا تھا، ”تہران نے گزشتہ 10 برسوں میں چین کے ساتھ اپنے تعلقات کو وسعت دی ہے اور وہ چین اور روس کو مغرب کے خلاف اپنے اہم اتحادیوں کے طور پر دیکھتا ہے۔ اب چین ایک نازک جغرافیائی سیاسی تنازعے میں امارات کے ساتھ کھڑا ہو گیا ہے۔ خلیج فارس میں عرب ممالک کے ساتھ اقتصادی تعاون چین کے لیے اہم ہے۔ اس معاملے سے پتہ چلتا ہے کہ چین اپنے مفادات کا تعین کیسے کرتا ہے اور ایران کے ساتھ اپنے تعلقات کو کس نظر سے دیکھتا ہے؟‘‘

ایرانی عوام اپنی حکومت سے ناراض

ایرانی عوام چین کے ساتھ ساتھ تہران کی حکومت اور اس کی خارجہ پالیسی سے بھی ناراض ہیں۔ ایران کے وزیر خارجہ نے دس دسمبر کو ٹویٹر پر فارسی میں ایک پیغام لکھا، ”خلیج فارس میں ابو موسیٰ، بڑا اور چھوٹا طنب، یہ تینوں جزیرے ایران کے لازم و ملزوم حصے ہیں اور ہمیشہ اس مادر وطن کا حصہ رہیں گے۔ اسلامی جمہوریہ ایران کی علاقائی سالمیت کے احترام کے معاملے میں ایران کسی بھی ملک کے ساتھ سمجھوتہ نہیں کرے گا‘‘۔

ان کے اس ٹویٹر پیغام کے بعد انہی کے خلاف ایک طوفان اٹھ کھڑا ہوا اور ایرانی شہریوں نے انہیں آڑے ہاتھوں لیا۔ ایک ناراض شہری نے تنقید کرتے ہوئے لکھا، ”جب چین کے ساتھ آپ کی دوستی کی بات آتی ہے تو آپ اپنی ٹویٹس چینی زبان میں لکھتے ہیں۔ اب آپ فارسی میں ایک ٹویٹ کرتے ہیں اور چین کا نام لینے کی بھی ہمت نہیں رکھتے؟‘‘

دو دن بعد ایرانی وزیر خارجہ امیر عبداللہیان نے اپنی ٹویٹ کا چینی ترجمہ اپنے اکاؤنٹ پر پوسٹ کیا۔

گزشتہ پچاس برسوں سے متحدہ عرب امارات وقفے وقفے سے ان چھوٹے جزیروں پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کر رہا ہے جبکہ تہران اس حوالے سے بار بار اپنے غصے کا اظہار کر چکا ہے۔ اس حوالے سے امارات کو اپنے طاقتور پڑوسی سعودی عرب کی حمایت بھی حاصل ہے۔ یہ تزویراتی لحاظ سے خلیج فارس میں آبنائے ہرمز کے قریب تیل کے سمندری راستے پر تین اہم جزیرے ہیں۔

ان جزائر پر تنازعہ اس وقت شروع ہوا، جب برطانوی افواج 1971 میں آج کے امارات سے نکل گئی تھیں۔ اس وقت شاہ ایران نے ملکی بحریہ کو ان جزائر کی جانب روانہ کرتے ہوئے انہیں وہاں تعینات کیا۔ ان جزیروں میں صرف ابو موسیٰ کی آبادی ہے، جہاں تقریبا پانچ ہزار افراد آباد ہیں۔ ایرانی صارفین اس وقت سوشل میڈیا پر 1891ء کا ایک نقشہ پوسٹ کر رہے ہیں، جسے جرمن نقش نگار ایڈولف شٹیلر نے بنایا تھا۔ اس نقشے پر یہ تینوں جزائر ایران کے رنگ سے نشان زدہ ہیں۔

چین معاملہ ٹھنڈا کرنے کی کوشش میں

ایران کے نائب صدر محمد مخبر نے 13 دسمبر کو تصدیق کرتے ہوئے کہا کہ تہران کے ساتھ کھڑا ہے۔ سرکاری میڈیا کے مطابق ایک چینی وفد نے 13 دسمبر کو ایران میں چینی سرمایہ کاری کو حکومت کے ساتھ مربوط کرنے کے لیے تہران کا دورہ کیا تھا۔ سرکاری انگریزی روزنامہ ”تہران ٹائمز‘‘ نے 14 دسمبر کو رپورٹ کیا، ”چین نے ایران کی علاقائی سالمیت کی حمایت کا اعلان کیا ہے‘‘۔

چینی نائب صدر نے ایرانی صدر ابراہیم رئیسی سے بھی ملاقات کی تھی۔ چینی میڈیا کے مطابق اس ملاقات میں انہوں نے بیجنگ اور ریاض کے تعاون کے حوالے سے اپنے خدشات کا اظہار کیا۔ اس میں ان جزیروں کا معاملہ بھی شامل تھا۔

”چین ایران کے خلاف نہیں لیکن سعودی عرب کے ساتھ‘‘
ایرانی ماہر عامر چاہکی کا ڈی ڈبلیو کو انٹرویو دیتے ہوئے کہنا تھا، ”چین سعودی عرب اور خلیج تعاون کونسل کے رکن ممالک پر انحصار کر رہا ہے۔ چین کے لیے تمام اہم فیصلوں کا مرکز معیشت ہے۔ چین ایران یا اسلامی جمہوریہ کے خلاف نہیں ہے لیکن سعودی عرب کے ساتھ تعاون اس وقت اس ملک کے لیے زیادہ منافع بخش ہے‘‘۔

سعودی عرب اور خلیج تعاون کونسل کے پانچ دیگر رکن ممالک انتہائی امیر ہیں اور چینی سرمایہ کاروں کو ایران سے بہتر مواقع فراہم کرتے ہیں۔ ایرانیوں کے مقابلے میں ان عرب ممالک کے عوام کی قوت خرید بھی انتہائی زیادہ ہے۔ دوسری جانب مغرب کے ساتھ جوہری تنازع کی وجہ سے ایران مالی بحران کا شکار ہے۔

سن 2021 میں چین نے ابراہیم رئیسی کی حکومت کے ساتھ 25 سالہ جامع تعاون کے ایک معاہدے پر دستخط کیے تھے۔ تاہم ایران میں تقریباً 100 مشترکہ منصوبوں میں سے کسی ایک میں بھی، جیسے کہ بنیادی ڈھانچے کی تعمیر یا آزاد تجارتی زون قائم کرنے میں، اب تک کوئی پیش رفت نہیں ہوئی ہے۔ چینی سرمایہ کار پیچھے ہٹ رہے ہیں۔ اگر وہ ایران میں کاروبار کرتے ہیں تو انہیں امریکی پابندیوں کے منفی نتائج کا خدشہ ہے۔ ملک میں تقریباً دس ہفتوں سے جاری مظاہروں کے بعد ایرانی کرنسی ریکارڈ کم ترین سطح پر آ گری ہے۔

اپنا تبصرہ بھیجیں