کابل (ڈیلی اردو/اے ایف پی/اے پی/رائٹرز) طالبان کی جانب سے پابندی کے نفاذ کے بعد خواتین نے یونیورسٹیوں کے باہر احتجاج کرنے کے ساتھ ہی آہ و زاری بھی کی۔ بیشتر ممالک نے طالبان حکومت کے اقدام کی مذمت کی ہے جبکہ اقوام متحدہ نے اسے واپس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
A day after of the Taliban BANNED female university education, women & girls have come out on the streets of Kabul protesting against the decree.
They chant —“Either for everyone or for no one. One for all, all for one”
Amplify their voices.pic.twitter.com/mWbf5Mtcr2
— Shabnam Nasimi (@NasimiShabnam) December 22, 2022
بہت سی افغان خواتین 21 دسمبر بدھ کے روز یونیورسٹیوں کے باہر کھڑی تھیں، جن میں سے بیشتر کو سکیورٹی فورسز نے اندر داخل ہونے سے روک دیا۔ حکمران طالبان نے خواتین کی اعلیٰ تعلیم پر بھی پابندی عائد کر دی ہے اور سکیورٹی فورسز نے اس کا سختی سے نفاذ شروع کر دیا ہے۔
بدھ کو سیاہ چادروں اور سر پر اسکارف میں ملبوس خواتین کابل اور دیگر جگہوں پر یونیورسٹیوں کے باہر جمع ہوئیں۔ ان میں سے بہت سی ایک دن پہلے تک، اپنے مستقبل کے تئیں جو خواب اور امنگیں سجا رکھی تھیں، اس پر آہ و زاری بھی کر رہی تھیں۔
Dozens protest in Afghan capital after Taliban close universities to women https://t.co/DmeGdARdND pic.twitter.com/771EF7hL7g
— Reuters Asia (@ReutersAsia) December 22, 2022
قندوز میں نرسنگ کی ایک 23 سالہ طالبہ امینی نے فرانسیسی خبر رساں ایجنسی اے ایف پی کو بتایا کہ ”ہمیں ایسا محسوس ہوا جیسے ہم پنجرے میں قید پرندے ہوں۔ ہم نے ایک دوسرے کو گلے لگایا، چیخ و پکار کی: آخر ہمارے ساتھ ایسا کیوں ہو رہا ہے؟”
طالبان نے جب خواتین کے لیے یونیورسٹی میں جانے پر پابندی عائد کی، تو ملک بھر کی یونیورسٹیاں موسم سرما کی تعطیلات پر تھیں، تاہم اس وقت بھی بہت سے طلبہ یونیورسٹیوں میں امتحانات دینے یا لائبریریوں میں پڑھنے کے لیے موجود تھے۔
بدھ کے روز کچھ طالبات کو انتظامی امور کی تکمیل کے لیے کیمپس میں داخل ہونے کی اجازت بھی دی گئی۔ کابل یونیورسٹی کے ترجمان نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا کہ دیگر طالبات کو ان کی گریجویشن تقاریب میں شرکت کے لیے بھی اجازت دی گئی۔
شعبہ پولیٹیکل سائنس کی تیسرے سال کی ایک طالبہ ہستی ان طالبات میں شامل ہیں، جن کے سالانہ امتحانات پابندی کی وجہ سے منسوخ کر دیے گئے۔ انہوں نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا کہ پابندی کے اعلان کے بعد ان کی امتحان کی تیاریاں اور جوش جلد ہی سوگ میں بدل گئی۔
ان کا کہنا تھا، ”میں نے تعلیم کے حصول کے لیے اپنی پوری کوشش کی ہے، میرے لیے تو یہ بہت مشکل وقت ہے، کیوں کہ اب مجھے اپنی پڑھائی روکنی پڑ رہی ہے اور میرے مقاصد حاصل نہیں ہو رہے ہیں… اگر خواتین کے لیے حالات ایسے ہی رہے تو اس کا مطلب ہے کہ خواتین اور لڑکیوں کو زندہ دفن کیا جا رہا ہے۔”
افغانستان میں لوگوں کا رد عمل کیا ہے؟
طالبان کے اس فیصلے کی بین الاقوامی سطح پر بڑے پیمانے پر مذمت کی گئی ہے اور مقامی لوگوں نے بھی اپنی مایوسی کا اظہار کیا۔ کیمپس کے باہر سخت سیکورٹی کی موجودگی کے باوجود فیصلے کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے جمع ہونے کے ساتھ ساتھ بہت سے لوگوں نے سوشل میڈیا پر بھی پابندی کی مذمت کی۔
ٹویٹر اور فیس بک کے صارفین نے اس فیصلے کے خلاف احتجاج کے لیے ہیش ٹیگ #LetHerLearn (لڑکیوں کو سیکھنے دیں) کا استعمال کیا۔
تمنا عارف نامی طالبہ نے اپنی ٹویٹ میں کہا: ”ہم صبح ساڑھے چھ بجے یونیورسٹی آئے تھے۔ لڑکوں کو تو اندر جانے کی اجازت دی گئی، اور لیکن ہم پر بندوق اٹھا لی اور ہمیں گھر جانے کو کہا۔” تمنا نے کابل کی کردان یونیورسٹی کی تصاویر بھی شیئر کیں، جس میں آس پاس کی خالی گلیوں کو دیکھا جا سکتا ہے۔
ہادیہ رحمانی نامی ایک اور صارف نے فیس بک پر لکھا: ”مجھے معلوم تھا کہ ایک دن ایسا ہونے والا ہے، یہاں تک کہ آئندہ نوٹس میں گلیوں اور سڑکوں پر نکلنے پر بھی پابندی عائد کر دی جائے گی۔”
عالمی سطح پر فیصلے کی مذمت
یونیورسٹیوں میں طالبات پر پابندی کو عالمی رہنماؤں اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی تنقید کا نشانہ بنایا ہے۔
افغانستان میں اقوام متحدہ کے مشن نے طالبان انتظامیہ پر زور دیا کہ وہ اس فیصلے کو ”فوری طور پر” واپس لے۔ اس نے چھٹی جماعت سے آگے لڑکیوں کے اسکولوں کو دوبارہ کھولنے کا بھی مطالبہ کیا ہے۔ طالبان نے لڑکیوں کی ثانوی تعلیم پر پہلے ہی پابندی عائد کر دی تھی۔
اقوام متحدہ نے کہا کہ طالبان کے زیر انتظام حکومت کو ”خواتین اور لڑکیوں کو روزمرہ کی عوامی زندگی میں مکمل طور پر حصہ لینے سے روکنے والے تمام اقدامات کو ختم کرنا چاہیے۔”
اس دوران امریکہ کی جانب سے مذمت کا سلسلہ جاری ہے۔ وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے خبردار کیا کہ اس فیصلے کے ”طالبان کے لیے نتائج” ضرور ہوں گے۔ انہوں نے مزید کہا کہ دنیا کے کسی اور ملک نے خواتین اور لڑکیوں کو تعلیم سے نہیں روکا ہے۔
برطانوی وزیر اعظم رشی سوناک نے بدھ کے روز ایک بیان میں پابندی کو ”پستی کی جانب ایک سنگین قدم” قرار دیا۔ انہوں نے طالبان کو خبردار کیا کہ ”دنیا یہ سب دیکھ رہی ہے۔”
ادھر جرمن وزیر خارجہ اینالینا بیئربوک نے طالبان حکمرانوں پر الزام لگایا کہ وہ ملک کے مستقبل کو ”تباہ” کرنے کا فیصلہ کر رہے ہیں۔ انہوں نے اس بات پر بھی زور دیا کہ دنیا سب دیکھ رہی ہے اور ”طالبان خواتین کو بند کرنے کی چاہے جتنی کوشش کریں، تاہم وہ اس میں کامیاب نہیں ہوں گے۔”
مسلم ممالک نے بھی فیصلے کی مذمت کی
ہمسایہ ملک پاکستان نے بھی اس پابندی پر مایوسی کا اظہار کیا اور طالبان حکام پر دوبارہ غور کرنے کی اپیل کی ہے۔ اسلام آباد نے خواتین کو تعلیم فراہم کرنے کی اپنی ”واضح اور مستقل” پوزیشن پر زور دیا ہے۔
قطر نے بھی ایسا ہی موقف اختیار کیا۔ امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں سہولت کار کا اہم کردار ادا کرنے والے ملک نے حکومت پر زور دیا کہ وہ اسلام کی تعلیمات کے مطابق اپنے فیصلے پر نظر ثانی کرے۔