کوئٹہ (ڈیلی اردو/ وی او اے) بلوچستان کی اہم ترین بندرگاہ اور ساحلی شہر گوادر میں پیر کی صبح سے حالات کشیدہ ہیں۔’حق دو تحریک‘ کے خلاف سیکیورٹی اداروں کی کارروائی کے خلاف بڑی تعداد میں مقامی افراد سڑکوں پر نکل آئے اور احتجاج کیا۔
گوادر میں ہفتے اور اتوار کی درمیانی شب ‘حق دو تحریک’ کے دھرنے کو منتشر کرنے کے لیے پولیس نے شیلنگ کی تھی جس سے دھرنے میں موجود خواتین اور بچے بھی شدید متاثر ہوئے۔ پولیس نے کئی افراد کو حراست میں بھی لیا تھا جن میں تحریک کے کئی رہنما بھی شامل ہیں۔
سیکیورٹی اداروں کی کارروائی کی اطلاع ملنے پر پیر کی صبح مقامی افراد نے میرین ڈرائیو کی جانب مارچ شروع کر دیا۔
احتجاج میں شریک بعض افراد نے سڑکوں پر ٹائر جلائے اور میرین ڈرائیو جانے والی شاہراہ بلاک کر دی۔
احتجاجی مظاہرین نے ہنگامہ آرائی کے دوران ڈپٹی انسپکٹر جنرل (ڈی آئی جی) پولیس کے آفس پر بھی پتھراؤ کیا جب کہ اس دوران پولیس کی جانب سے شیلنگ بھی کی گئی۔
مقامی میڈیا کے مطابق مظاہرین نے ڈی آئی جی کمپلیکس کےمرکزی دروازے کو بھی نذر آتش کر دیا۔
دوسری جانب سربندن کراس پر بھی خواتین نے مکران کوسٹل ہائی وے پر دھرنا دے دیا جس سے شاہراہ ٹریفک کی آمد و رفت کے لیے مکمل بلاک ہو گئی ہے۔
گوادر میں جاری دھرنا کے شرکاء پر پولیس نے آدھی رات دھاوابول دیا- گوادر سے اطلاعات آرہی ہیں کہ پولیس نے پہلے آنسو گیس فائر کئے اور اس کے بعد متعدد پُرامن مظاہرین کو گرفتار کر کے پولیس والے ساتھ لیکر گئے-#Balochistan #Gwadar https://t.co/dHx7ocwxZG pic.twitter.com/jvATZTTCfA
— Kiyya Baloch (@KiyyaBaloch) December 25, 2022
وائس آف امریکہ کے نمائندے مرتضیٰ زہری کے مطابق احتجاج کا دائرہ آہستہ آہستہ بڑھتا جا رہا ہے اور گوادر کے بعد پیشکان اور سربندن سمیت ضلع کےبیشتر چھوٹے بڑے شہروں میں کاروبار زندگی معطل ہو رہا ہے۔ بیشتر کاروباری مراکز اور بینک بند کر دیے گئے ہیں جب کہ شاہراہوں پر رکاوٹوں سے آمد و رفت میں مشکلات پیش آ رہی ہیں۔
خیال رہے کہ ‘حق دو تحریک‘ کے شرکا نے دو ماہ قبل لالہ حمید چوک پر دھرنا دیا تھا ۔ جمعرات کو اس دھرنے کا مقام تبدیل کر کے پورٹ روڈ پر منتقل کیا گیا تھا۔
پورٹ روڈ وہ راستہ ہے جو گوادر بندرگاہ کو گوادر شہر سے ملاتا ہے جس کی بندش سے بندرگاہ جانے والے راستے بھی بند ہو گئے ہیں۔
مظاہرین کا مطالبہ ہے کہ گوادر شہر میں پینے کے صاف پانی کی فراہمی کے علاوہ ٹرالر مافیا اور چیک پوسٹس کا خاتمہ کیا جائے۔
تحریک کے زیرِ اہتمام گزشتہ برس نومبر میں بھی اپنے مطالبات پر کئی روز تک دھرنا دیا گیا تھا جب کہ خواتین کی بڑی تعداد نے ریلی بھی نکالی تھی۔
#گوادر میں حق دو تحریک کے دھرنے پر فورسز کی جانب سے دھاوا، کارکنان و رہنماؤں پر تشدد اور گرفتاری کے خلاف آج پورا گوادر سڑک پر نکل گیا
ضلع گوادر کے تمام تحصیل میں مکمل طور پر شٹرڈاؤن ہڑتال اور تمام کاروبار بند
رہنماؤں اور کارکنوں کی رہائی تک احتجاج اور شٹرڈاؤن جاری رہے گا pic.twitter.com/Tv8wUxUBRW— حق دو تحریک بلوچستان (@HDT_Balochistan) December 26, 2022
صوبائی حکومت کا ’مجبوراََ‘ کارروائی کرنے کا اعلان
دوسری جانب بلوچستان کی حکومت کے ترجمان نے ’حق دو تحریک‘ کے احتجاج اور دھرنے پر پالیسی بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ احتجاج سب کا جمہوری حق ضرور ہے اور حکومت اس حق کا احترام کرتی ہے لیکن دھرنے کے شرکا کی جانب سے گوادر پورٹ کی طرف مارچ کرنے اور پورٹ کو بند کرنے کی کوشش کی گئی ۔’حق دو تحریک‘ کا طرز عمل اور رویہ اشتعال انگیزی پر مشتمل ہے۔یہ رویہ نہ صرف ملکی بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی شرمندگی کا باعث بن رہا ہے۔
’حق دو تحریک‘ کے سربراہ کا نام لے کر ترجمان کا کہنا تھا کہ چند ماہ قبل وزیرِ اعلیٰ بلوچستان نے گوادر جاکر مولانا ہدایت الرحمٰن سے مذاکرات کر کے دھرنا ختم کرایا تھا۔ حق دو تحریک کے بیشتر مطالبات تسلیم کرکے ان پر عمل درآمد شروع کیا گیا اور مطالبات پورے کرنے کے لیے جاری عمل کو مزید تیز کیا گیا ہے۔
ان کا دعویٰ تھا کہ ‘حق دو تحریک’ کی جانب سے صوبائی حکومت کی مخلصانہ کوششوں اور بات چیت کی خواہش کو کمزوری سمجھا گیا۔کسی کو حکومتی رٹ چیلنج کرنے اور قانون ہاتھ میں لینے کی اجازت نہیں دی جاسکتی ۔
انہوں نے کہا کہ شرکا کی پورٹ کی جانب پیش قدمی کو روکنے کے لیے مجبوراً پولیس کو کارروائی کرنا پڑی ۔ تاہم صوبائی حکومت مسائل اور مطالبات کے حل کے لیے مذاکرات پر مکمل یقین رکھتی ہے۔