پشاور (ڈیلی اردو) پشاور ہائی کورٹ نے فوجی عدالتوں سے 5 دہشت گردوں کو پھانسی کی سزا کے خلاف حکمِ امتناع جاری کردیا۔
نجی ٹی وی چینل ڈان نیوز کے مطابق سزائے موت کے خلاف مجرموں کی جانب سے دائر درخواستوں پر سماعت کے دوران دو رکنی بینچ نے وزارت دفاع کو نوٹس جاری کرتے ہوئے جواب طلب کرلیا۔
عدالت کا کہنا تھا کہ چونکہ یہ معاملہ ڈویژن بینچ سے متعلق ہے اس لیے یہ درخواستیں موسم سرما کی تعطیلات کے بعد ڈویژن بینچ کے سامنے رکھی جائیں۔
درخواست گزاروں کے وکیل شبیر حسین گیگیانی عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔
انہوں کہا کہ درخواست گزاروں کو مختلف حراستی مراکز میں رکھا گیا اور انہیں اپنی سزاؤں کے حوالے سے بھی علم نہیں تھا۔
ان کا کہنا تھا کہ حال ہی میں انہیں پشاور کے مرکزی جیل میں منتقل کیا گیا جہاں انہیں معلوم ہوا کہ فوجی عدالتوں کی جانب سے انہیں سزائے موت سنائی گئی ہے۔
درخواست گزاروں میں ضلع کوہاٹ سے تعلق رکھنے والے محمد منیر اور ضلع سوات سے تعلق رکھنے والے شرافت علیم، رحمت علی اور محمد علی شامل ہیں۔
وکیل نے استفسار کیا کہ تمام 5 درخواست گزار اس سے قبل ’لاپتا افراد‘ میں شامل تھے اور انہیں مختلف مواقع کے دوران حراست میں لیا گیا تھا، جبکہ کچھ سالوں سے انہیں کہاں رکھا گیا، اس حوالے سے بھی کچھ معلوم نہیں تھا۔
خیال رہے کہ ستمبر 2018 میں آئی ایس پی آر کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں بتایا گیا تھا کہ درخواست گزاروں میں سے ایک شخص محمد منیر کا تعلق کالعدم عسکریت پسند تنظیم سے ہے۔
پریس ریلیز میں مزید بتایا گیا کہ محمد منیر قانون نافذ کرنے والے اداروں کے اہلکاروں پر حملے میں ملوث تھا، اس حملے میں پولیس اہلکار خورشید خان، عنایت خان، معین خان سمیت دیگر دو عہدیدار ہلاک جبکہ 12 افراد زخمی ہوئے تھے۔
آئی ایس پی آر کی جانب سے پریس ریلیز میں انکشاف کیا گیا کہ اُس وقت کے آرمی چیف نے محمد منیر سمیت 13 دہشت گردوں کی سزائے موت کی تصدیق کی تھی۔
تاہم محمد منیر کے وکیل نے استفسار کیا کہ ان کے مؤکل کو 11 مئی 2017 کو حراست میں لیا گیا اور کوہاٹ کے نظر بند سینٹر منتقل کرنے سے پہلے انہیں نامعلوم حراستی مرکز میں رکھا گیا۔
انہوں نے عدالت کو آگاہ کیا کہ ریکارڈ سے ظاہر ہوتا ہے کہ ان کے مؤکل کو 2017 کے دوران گرفتار کیا گیا جبکہ حکام کی جانب سے انہیں متعلقہ عدالت کے سامنے پیش نہ کرنا غیر قانونی اور غیر آئینی عمل تھا۔
وکیل نے کہا کہ دیگر 4 درخواست گزاروں کو فوجی عدالتوں نے کب اور دہشت گردی کی کن کارروائیوں کے لیے سزا سنائی تھی اس سے متعلق ریکارڈ میں معلومات دستیاب نہیں ہیں۔
خیال رہے کہ فوجی عدالتیں 2015 میں آئینی (21 ویں ترمیم) ایکٹ 2015 کے ذریعے 2 سال کے لیے دہشت گردی کے مقدمات کی سماعت کے لیے قائم کی گئی تھیں، ان عدالتوں کو 6 جنوری 2017 کو ختم کردیا گیا۔
بعد ازاں 23ویں آئینی ترمیم کے تحت ایکٹ 2017 کے ذریعے ان کی مدت 30 مارچ 2019 تک بڑھا دی گئی تھی۔
اسی طرح پارلیمنٹ نے متعدد جرائم کو قانون میں شامل کرنے کے لیے پاکستان آرمی ایکٹ میں ترامیم کی تھیں۔
ان ترامیم کے بعد فوجی عدالتوں کو دہشت گردوں کے خلاف مقدمات چلانے کا اختیار دے دیا گیا تھا تاہم یہ عدالتیں صرف ان لوگوں کے مقدمات پر سماعت کر سکتی تھیں جو مذہبی فرقوں یا مذہب کے نام پر دہشت گرد تنظیموں کا حصہ تھے۔