سرینگر: بھارتی کشمیر میں دھماکا، دو ہندو بچے ہلاک

سری نگر (ڈیلی اردو) بھارت کے زیر انتظام کشمیر میں ایک روز قبل فائرنگ سے ہونے والی ہلاکتوں کے بعد اسی مقام پر ہونے والے بم دھماکے میں دو بچے ہلاک ہوگئے۔

عالمی خبر رساں ادارے کے مطابق کشمیر کے علاقے راجوری کے نواحی گاؤں ڈاھنگری میں دھماکے سے دو بچوں کی ہلاکت ہوئی۔

دریں اثنا کشمیر کے اسی علاقے میں اتوار کی شب فائرنگ سے 4 افراد ہلاک جبکہ 5 زخمی ہوگئے تھے، پولیس کے مطابق اتوار کی شب ڈاھنگری میں ملزمان کی طرف سے تین گھروں پر فائرنگ کی گئی۔

دونوں واقعات میں ہلاک ہونے والے تمام افراد ہندو کمیونٹی سے بتائے جاتے ہیں اور پولیس کا کہنا ہے کہ عسکریت پسندوں کی جانب سے یہ ایک ٹارگیٹیڈ حملہ تھا۔ حملہ آوروں کی تلاش اب بھی جاری ہے۔

دوسری جانب شہریوں کی ہلاکت پر ڈاھنگری میں حکومت مخالف احتجاج میں ملزمان کی گرفتاری کا مطالبہ کیا۔

گزشتہ دو ہفتوں کے دوران ضلع راجوری میں شہریوں کی ہلاکتوں کا یہ دوسرا واقعہ ہے۔ اس سے قبل 16 دسمبر کو ایک بھارتی فوج کے کیمپ کے باہر دو افراد کو گولی مارکر ہلاک کر دیا گیا تھا۔ ابتدا میں مقامی لوگوں نے ان ہلاکتوں کا الزام بھارتی فوج پر عائد کیا تھا، تاہم بعد میں پولیس نے اس کی ذمہ داری بھی عسکریت پسندوں پر عائد کی تھی۔

جموں و کشمیر کے گورنر منوج سنہا نے اس واقعے کی مذمت کرتے ہوئے اس حملے میں ہلاک ہونے والوں کے لواحقین کو 10 لاکھ روپے معاوضہ اور سرکاری ملازمتیں دینے کا اعلان کیا ہے۔ انہوں نے کہا کہ سرکاری حکام کو ہدایت دی گئی ہے کہ وہ زخمیوں کے بہترین علاج کو یقینی بنائیں۔

پانچ روز قبل یعنی 28 دسمبر کو بھارتی سکیورٹی فورسز نے تصادم کے دوران کم از کم چار عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کا دعوی کیا تھا۔ بھارتی فوج کے مطابق یہ واقعہ بھی وادی کشمیر کے بجائے جموں کے علاقے میں پیش آیا تھا اور مبینہ طور پر شدت پسند وادی کی جانب بڑھ رہے تھے۔

گزشتہ ماہ کے اوائل میں بھارت کے نائب وزیر داخلہ نتیہ نند رائے نے بتایا تھا کہ جموں و کشمیر میں سن 2022 میں 30 نومبر تک عسکریت پسندوں اور سکیورٹی فورسز کے اہلکاروں کے درمیان تصادم کے متعدد واقعات میں 180 عسکریت پسند مارے گئے۔

انہوں نے پارلیمان کے ایوان بالا راجیہ سبھا میں ایک سوال کے جواب میں بتایا تھا، ”جموں و کشمیر میں نومبر 2022 کے اواخر تک دہشت گردی کے 123 واقعات پیش آئے۔ ان میں 180عسکریت پسند اور 31 سکیورٹی اہلکار ہلاک ہو گئے۔ جب کہ 31 عام شہریوں کو بھی اپنی جان سے ہاتھ دھونا پڑا۔”

اپنا تبصرہ بھیجیں