تہران (ڈیلی اردو/ڈی پی اے/اے ایف پی) ایرانی حکام نے حکومت مخالف مظاہروں میں شمولیت پر جیلوں میں قید افراد کے اہل خانہ کے انٹرویو شائع کرنے پر ایک صحافی کو گرفتار کر لیا ہے۔
مهدی بیکاوغلی، دبیر سرویس سیاسی روزنامه اعتماد شب گذشته بازداشت شد
همسر مهدی بیک با انتشار این خبر در توییتر نوشت: موبایل، لپتاپ و وسایل مهدی بیک در جریان بازداشتش ضبط شده است. pic.twitter.com/P9HiYqUWGZ
— اعتمادآنلاين (@EtemadOnline) January 6, 2023
اصلاحات پسندوں کے اخبار روزنامہ اعتماد کے مطابق ملک بھر میں جاری حکومت مخالف مظاہروں سے تعلق کے شبے میں سزا پانے والے افراد کے اہل خانہ کے انٹرویوز شائع کرنے پر سینیئر صحافی مہدی بیکوغالی کو گرفتار کر لیا گیا ہے۔
بیکوغالی روزنامہ اخبار کے سیاسیات کے شعبے کے سربراہ ہیں۔ انہون نے اپنے اخبار کے لیے ان مقید ایرانی شہریوں کے اہل خانہ کے انٹرویوز کیے تھے، جنہیں مظاہروں میں شمولیت کے الزام پر سزائے موت سنائی جا چکی ہے۔
سولہ ستمبر کو نوجوان خاتون مہسا امینی کو ایران کی اخلاقی پولیس نے ”لباس سے متعلق ضوابط کی خلاف ورزی‘‘ پر گرفتار کیا تھا، جب کہ بعد میں یہ لڑکی دوران حراست ہلاک ہو گئی تھی۔ اس ہلاکت کے بعد ایران بھر میں مظاہرے شروع ہو گئے تھے، جن سے تعلق کے شبے میں کئی افراد کو سزائے موت سنائی جا چکی ہے۔ بیکوغالی نے ایسے ہی افراد کے اہل خانہ سے بات چیت اپنے اخبار میں شائع کی تھی۔
اپنی ویب سائٹ پر اخبار نے لکھا کہ روزنامہ اعتماد کے سیاسی شعبے کے سربراہ مہدی بیکوغالی کو گزشتہ شب حراست میں لے لیا گیا ہے۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی کے اعدادوشمار کے مطابق گزشتہ ماہ تیئس برس کی عمروں کے دو افراد کو پھانسی دی گئی۔ ان افراد پر ایرانی حکام نے ”فسادات‘‘ میں ملوث ہونے کا الزام عائد کیا تھا۔ دیگر بارہ افرادس کو سزائے موت سنائی گئی تھی۔ انسانی حقوق کی تنظیموں کے مطابق ایران میں درجنوں افراد ایسے الزامات کا سامنا کر رہے ہیں، جن پر انہیں سزائے موت سنائی جا سکتی ہے۔
روزنامہ اعتماد کے مطابق، ”بیکوغالی کی اہلیہ نے ٹوئٹر پر لکھا ہےکہ ان کے شوہر کو گرفتار کرتے ہوئے پولیس نے ان کا فون، کمپیوٹر اور ذاتی استعمال کی دیگر چیزیں بھی قبضے میں لی ہیں۔‘‘
ایک اور اصلاحات پسند اخبار چرغ نے دسمبر میں چالیس زیرحراست صحافیوں اور فوٹوجرنلسٹس کی ایک فہرست شائع کی تھی، جنہیں مظاہروں سے تعلق کے شبے میں گرفتار کیا گیا ہے۔ ان میں چرغ سے وابستہ صحافی نیلوفر حمیدی بھی شامل ہیں۔ نیلوفر حمیدی ہی نے ایک اور صحافی علیحہ محمدی کے ہم راہ مہسا امینی کے معاملے پر رپورٹنگ کی تھی، جس میں مہسا امینی کی ہسپتال میں طبی امداد سے لے کر تدفین تک کی تفصیلی رپورٹنگ شامل تھی۔ یہ دونوں خواتین ستمبر سے زیرحراست ہیں۔
As of January 5, CPJ has documented the names of at least 84 journalists who have been arrested in #Iran amid ongoing protests.
36 of these journalists have been released on bail.#MahsaAmini #IranProtests2022 #IranProtests
Read their names:https://t.co/VDlQeaxvDV
— Committee to Protect Journalists (@pressfreedom) January 5, 2023