اسلام آباد (ڈیلی اردو) اسلام آباد ہائی کورٹ نے کوہسار پولیس کو پاکستانی نژاد جرمن شہری کی گمشدگی کے سلسلے میں 2 سابق جرنیلوں اور مالیاتی مشیر سے تفتیش کی ہدایت کردی۔
ڈان اخبار کے مطابق شہری ذیشان خان کی جانب سے ان کے چچا عبدالواحد رحمٰن کی بازیابی کی درخواست پر اسلام آباد ہائی کورٹ کے جسٹس محسن اختر کیانی نے سماعت کی۔
عبدالواحد رحمٰن 30 نومبر 2021 سے تھانہ کوہسار کی حدود سے لاپتا ہیں، پولیس نے اُن کے اغوا پر پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 365 کے تحت یکم دسمبر 2021 کو پہلی ایف آئی آر درج کی تھی۔
دوران سماعت عدالت کو بتایا گیا کہ لاپتا شہری کا تاحال سراغ نہیں لگایا جاسکا، ان کے وکیل ایڈووکیٹ راحیل خان یوسفزئی نے عدالت کے روبرو استدلال کیا کہ انہیں بازیاب کرنا ریاستی اداروں کا فرض ہے، اگر وہ قانون نافذ کرنے والے کسی ادارے کی تحویل میں ہیں تو انہیں مجاز عدالت میں پیش کیا جانا چاہیے۔
وکیل نے عدالت کو آگاہ کیا کہ عبدالواحد رحمٰن جرمن شہری ہیں اس لیے انٹرپول بھی ان کی گمشدگی کی تحقیقات کر رہا ہے اور کچھ تفصیلات مقامی پولیس کو فراہم کی ہیں، انٹرپول نے مقامی پولیس کو بتایا کہ لاپتا جرمن شہری کے واٹس ایپ پر آخری لوکیشن دہلی گیٹ لاہور کی تھی۔
عدالت کو بتایا گیا کہ لاپتا جرمن شہری پیشے کے لحاظ سے مترجم ہیں اور اپنے مؤکلوں (کلائنٹس) کے لیے ایرانی اور افغانی لوگوں کے انٹرویو کرتے تھے۔
وکیل نے کہا کہ عبدالواحد رحمٰن اعلیٰ فوجی افسران سے بھی رابطے میں تھے اور ان میں سے چند ان کے قریبی دوستوں میں شامل ہیں۔
پولیس کی ابتدائی تحقیقاتی رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے ایڈووکیٹ راحیل خان یوسفزئی نے کہا کہ رپورٹ میں انکشاف کیا گیا ہے کہ عبدالواحد رحمٰن 2 سابق جرنیلوں اور ایک مالیاتی مشیر کے ساتھ مل کر کروڑوں روپے کی سرمایہ کاری کر رہے تھے جبکہ مذکورہ مالیاتی مشیر عبدالواحد رحمٰن کی جرمن شریک حیات سے بھی رابطے میں ہیں۔
انہوں نے عدالت کو بتایا کہ عبدالواحد رحمٰن اغوا ہونے سے قبل 2 ریٹائرڈ جرنیلوں سے رابطے میں تھے، عدالت نے استفسار کیا کہ کیا انہوں نے سابق فوجیوں سے تفتیش کے لیے فوجی حکام سے اجازت مانگی ہے؟
اسسٹنٹ اٹارنی جنرل عثمان گھمن نے عدالت کو بتایا کہ مذکورہ افسران ریٹائر ہوچکے ہیں اس لیے پولیس، جنرل ہیڈکوارٹرز (جی ایچ کیو) یا کسی انٹیلی جنس ایجنسی سے تحقیقات کی اجازت لینے کی پابند نہیں ہے۔
جسٹس محسن اختر کیانی نے پولیس کو ہدایت کی کہ لاپتا شہری کا سراغ لگانے کے لیے سابق جرنیلوں، مالیاتی مشیر اور دیگر کو شامل تفتیش کیا جائے۔
بعد ازاں کیس کی مزید سماعت یکم مارچ تک ملتوی کردی گئی۔