اسلام آباد (ڈیلی اردو/اے ایف پی/ڈی پی اے) اقوام متحدہ کے ثقافتی ادارے یونیسکو کی تازہ ترین رپورٹ کے مطابق کئی سالوں کی مسلسل کمی کے بعد گزشتہ برس دنیا بھر میں ہلاک ہونے والے صحافیوں کی تعداد 86 تک پہنچ گئی۔ جبکہ اُس سے پہلے سال یہ تعداد 55 تھی۔
The number of journalists killed worldwide significantly increased in 2022.
Latest update from @UNESCO highlights the grave risks and vulnerabilities journalists continue to face around the world. https://t.co/oP1TtckhDp pic.twitter.com/y33ASwbod3
— United Nations (@UN) January 17, 2023
پیر کو شائع ہونے والی یونیسکو کی اس رپورٹ سے پتا چلا ہے کہ 2021 ء کے مقابلے میں گزشتہ سال یعنی دوہزار بائیس میں دنیا بھر میں ہلاک ہونے والے صحافیوں کی شرح میں 36 فیصد کا اضافہ ہوا۔ دو ہزار بائیس میں ہلاک ہونے والے 86 صحافیوں میں سے نصف سے زائد کا تعلق لاطینی امریکہ اور کیریبئین ممالک سے تھا جن کے بعد میکسیکو میں میڈیا کے شعبے سے تعلق رکھنے والے افراد کی سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوئیں اُس کے بعد اس فہرست میں یوکرین اور ہیٹی کا نام شامل ہے۔
یونیسکو کے ڈائریکٹر جنرل آوڈری آزولے نے پیر کو ایک بیان میں کہا، ” تمام حکام کو اس قسم کے جرائم کے خاتمے کے لیے اپنی کوششوں کو دوگنا کرنا ہوگا تاکہ اس امر کو یقینی بنایا جا سکے کہ ایسے جرائم میں ملوث مجرموں کو سزا دی جاسکے۔ تشدد کے اس ماحول میں بے حسی ایک بڑا عنصر ہے۔‘‘
In 2022, 86 journalists were killed, an increase of 31 over the previous year.
Killings & other attacks against journalists are repugnant attempts to silence the truth.
Journalists must never be a target. https://t.co/7lYkGG3TSN
— Melissa Fleming ???????? (@MelissaFleming) January 17, 2023
2018ء کے مقابلے میں میڈیا کارکنوں کی ہلاکت کی تعداد 2021 ء میں کم ہوئی تھی تاہم 2022 میں اس تعداد میں ایک واضح اضافہ دیکھنے میں آیا۔ رپورٹ سے یہ بھی پتا چلا ہے کہ ہلاک ہونے والے صحافیوں میں سے نصف کو اپنی صحافی سرگرمیوں یا اپنی جاب کے دوران نیہں بلکہ یا تو دوران سفر یا ان کے گھروں میں ہلاک کیا گیا۔ اس اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ صحافیوں کے لیے کوئی جگہ محفوظ نہیں، یہاں تک کہ ان کے فارغ اوقات میں بھی وہ محفوظ نہیں ہوتے ہیں۔
پاکستان میں صحافیوں کی صورتحال
گزشتہ سال صحافیوں پر حملے اور آزادی صحافت کے خلاف اقدامات کے حوالے سے پاکستان کی صورتحال بھی کافی تشویشناک رہی۔ اس بارے میں ‘ساؤتھ ایشین فری میڈیا ایسو سی ایشن‘ سیفما کے سابق سکریٹری جنرل اور ایک معروف میڈیا شخصیت امتیاز عالم نے ڈوئچے ویلے کے ساتھ خصوصی بات چیت میں اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ اس سوال کے جواب میں کہ پاکستان میں صحافی برادری کے ساتھ ہونے والا سلوک کس امر کی نشاندہی کرتا ہے، امتیاز عالم کا کہنا تھا، ”پاکستان جب سے دہشت گردی کے خلاف جنگ میں شامل ہوا اور اُس کے بعد ہائبرڈ وار فیئر کا نظریہ اختیار کیا گیا تو اس کا سب سے بڑا نشانہ میڈیا اورصحافی بنے۔ ملکی فوج نے ایک مستقل سنسرشپ کا نظام مسلط کر دیا اور میڈیا فوج کے کنٹرول میں چلا گیا۔ آزادانہ صحافت کرنے پر صحافی نشانہ بنے، اغوا ہوئے، تشدد کا نشانہ بنے یہاں تک کہ کچھ ہلاک بھی ہوئے۔ ان میں وہ بھی شامل تھے جو خفیہ ایجنسیوں کے لیے کام کرتے تھے۔ جیسے کے ارشد شریف۔ جب انہوں نے لائن کراس کی تو مار دیے گئے یا پھر سائیڈ لائن کر دیے گئے۔ ‘‘
مرکزی دھارے کے میڈیا پر کنٹرول کے بارے میں امتیاز عالم کا کہنا تھا، ”مین اسٹریم میڈیا کنٹرول کے باعث وہ چلنے لگا جو مقتدرہ چاہتی تھی۔ ڈس انفارمیشن رجیم مسلط ہوئی اور رائے عامہ کو گمراہ کیا گیا۔ حق کے اظہار پر بندش کیساتھ ساتھ عوام کا جانکاری کا حق بھی معدوم ہوگیا۔ نتیجہ ہمیں دائیں بازو اور انتہا پسندی کی سوچ کے پھیلاؤ کی صورت میں نظر آتا ہے۔‘‘
پاکستان کے ایک نہایت معروف صحافی، تجزیہ کار اور پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹ کے سابق صدر مظہر عباس سے ڈوئچے ویلے نے صحافیوں کی صورتحال کے بارے میں سامنے آنے والی یونیسکو کی تازہ ترین رپورٹ کے پس منظر میں بات چیت کی۔ ان سے پوچھا کہ آخر صحافیوں کو ہی کیوں نشانہ بنایا جاتا ہے؟ تو ان کا جواب تھا،”دنیا بھر میں صحافیوں کو نشانہ بنایا جاتا ہے خاص طور پر ان صحافیوں کو جو حکومتوں اور اداروں کو، مافیاز کو بے نقاب کرتے ہیں ان کے جرائم پر سے پردہ اُٹھاتے ہیں تو ظاہر ہے کہ جب آپ کسی کے جرائم پر سے پردہ اُٹھائیں گے، کسی کی کرپشن کو منظر عام پر لائیں گے تو دوسری طرف سے رد عمل کے طور پر کبھی آپ کو وارننگ دی جاتی ہے تو کبھی رشوت اور اگر وہ دیکھتے ہیں کہ اُس کے باوجود آپ ان کے جرائم اور کرپشن کو بے نقاب کرنے سے باز نہیں آ رہے تو پھر وہ آپ کو نشانہ بناتے ہیں۔‘‘