انقرہ + واشنگٹن (ڈیلی اردو/اے ایف پی/رائٹرز) انقرہ چاہتا ہے کہ امریکی قانون سازوں کی مخالفت کے باوجود واشنگٹن ایف 16 جنگی طیاروں کی فروخت کے عمل میں تیزی لائے۔ لیکن امریکی قانون ساز نیٹو میں رکاوٹوں اور بعض علاقائی تنازعات کی وجہ سے ترکی سے ناراض ہیں۔
Turkey urges Biden administration to be 'decisive' over F-16 deal as Congress objects https://t.co/ZU3cdqNttg pic.twitter.com/4L9V2LNRKZ
— Reuters (@Reuters) January 19, 2023
ترکی نے 18 جنوری بدھ کے روز واشنگٹن ڈی سی میں دونوں ممالک کے وزرائے خارجہ کے درمیان ہونے والی ملاقات کے دوران امریکہ سے تقریباً 40 نئے ایف 16 جنگی طیاروں کی فروخت کے منصوبے کو آگے بڑھانے کا مطالبہ کیا۔
بائیڈن انتظامیہ کے اقتدار سنبھالنے کے بعد پہلی بار امریکی وزیر خارجہ انٹونی بلنکن نے واشنگٹن میں ترک وزیر خارجہ مولود چاوش اولو کی میزبانی کی ہے۔
اس بات چیت کے ایجنڈے میں یوکرین کی جنگ کے ساتھ ایف 16 کا معاہدہ بھی سب سے اہم موضوع تھا۔ اس ملاقات میں ترکی کی جانب سے نیٹو کی رکنیت کے لیے فن لینڈ اور سویڈن کی کوششوں کو روکنے کا معاملہ اور شام میں امریکی حمایت یافتہ کرد گروپوں پر حملے جیسے موضوعات بھی گفتگو کا موضوع تھے۔
چونکہ امریکہ انقرہ پر نیٹو کی رکنیت پر اپنے اعتراضات واپس لینے کے لیے دباؤ ڈالنا چاہتا ہے، اس لیے بائیڈن انتظامیہ نے 20 ارب ڈالر میں ایف 16 جنگی طیاروں کی فروخت کی حمایت کا اظہار کیا ہے۔
لیکن امریکی کانگریس کے بعض ارکان نے خطے میں ترکی کی جارحیت کا حوالہ دیتے ہوئے اس سودے کو روکنے کی دھمکی بھی دی ہے۔
نیٹو میں ترکی کی پیچیدگیاں
ترکی اور امریکہ دونوں ہی نیٹو اتحاد کے رکن ہیں، تاہم ترکی واحد ملک ہے جو سویڈن اور فن لینڈ کی نیٹو میں شمولیت کی کوششوں کا مخالف
ہے۔ نیٹو کی رکنیت کے لیے تمام ارکان کی اتفاق رائے ضروری ہوتی ہے۔ تاہم انقرہ کا کہنا ہے کہ اس نے جن گروپوں کو دہشت گرد قرار دے رکھا ہے ان کی یہ دونوں نورڈک ممالک حمایت کرتے ہیں اور اسی لیے اس نے نیٹو کی رکنیت کے لیے ان پر بعض شرائط رکھی ہیں۔
نیٹو کے بیشتر رکن ممالک نے یوکرین پر روسی حملے کے لیے سخت موقف اختیار کر رکھا ہے، تاہم اس معاملے میں بھی ترکی نے خود کو دوسروں سے الگ کر لیا ہے۔ اس نے روس کی کھلی مخالفت کے بجائے ایک غیر جانبدار ثالث کا کردار ادا کرنے کو ترجیح دی ہے۔
انقرہ کا کہنا ہے کہ ایف 16 جنگی طیاروں کی فروخت کا معاہدہ دونوں ممالک کے ساتھ ہی نیٹو کے لیے بھی بہت اہم ہے۔ چاؤش اولو کا کہنا تھا کہ جیسا کہ ”ہم نے پہلے بھی ایک ساتھ مل کر کہا تھا کہ یہ صرف ترکی کے لیے ہی نہیں بلکہ نیٹو اور امریکہ کے لیے بھی اہم ہے۔ لہذا ہم اپنے مشترکہ اسٹریٹجک مفادات کے عین مطابق اس منظوری کی توقع رکھتے ہیں۔”
امریکی قانون ساز معاہدے کے مخالف
امریکہ میں حکمراں ڈیموکریٹ کے بعض ارکان بھی اس سودے بازی کی مخالفت کر رہے ہیں۔ سینیٹر کرس وان ہولن نے اس سودے کے حصے کے طور پر بعض ضمانتوں کا مطالبہ کیا ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ ترک صدر طیب ایردوآن، ”شام کے ہمارے کرد اتحادیوں پر بار بار حملے کرنے کے ساتھ ہی روس سے بھی تعاون جاری رکھا ہوا ہے۔ اس کے ساتھ ہی سویڈن اور فن لینڈ کی نیٹو کی رکنیت میں تاخیر بھی تشویش کی سنگین وجوہات ہیں۔”
انہوں نے کہا کہ جیسا کہ ”میں پہلے کہہ چکا ہوں کہ ترکی کو ایف 16 جنگی طیاروں کے حصول کے لیے ہمیں ایسی یقین دہانی کی ضرورت ہے کہ ان خدشات کو دور کیا جائے گا۔”
ایک اور ڈیموکریٹ سینیٹر باب مینینڈیز نے، ہمسایہ ملک یونان کے خلاف ایردوآن کی دھمکی آمیز بیان کے ساتھ ہی استنبول کے مقبول میئر کی گرفتاری کی طرف اشارہ کرتے ہوئے، اس سودے کو روکنے کا عزم ظاہر کیا ہے۔
مینینڈیز کا کہنا ہے کہ وہ اس معاہدے کو اس وقت تک روکیں گے جب تک کہ ایردوآن ”پورے خطے میں اپنی جارحیت کی مہم کو روک نہیں دیتے۔”
ترکی نے روس سے ہتھیاروں کی خریداری کا ایک معاہدہ کیا تھا، جس کے بعد سن 2019 میں امریکہ کے جدید ایف 35 جنگی طیارے خریدنے پر پہلے ہی روک لگائی جا چکی ہے۔ جبکہ دوسری جانب امریکہ اس وقت یونان کو اپنے جدید ایف 35 جنگی طیارے فروخت کرنے کے ایک منصوبے پر کام کر رہا ہے۔