برسلز (ڈیلی اردو/وی او اے/اے پی/رائٹرز/اے ایف پی) جوہری توانائی کی نگرانی کے اقوام متحدہ کے ادارے کے سربراہ کا کہنا ہے کہ وہ اگلے ماہ ایران کا دورہ کریں گے ، اور انہیں امید ہے کہ وہ تہران کی جوہری سرگرمیوں کو روکنے کے مقصد سے کیے جانے والے سن 2015 کے معاہدے کو بحال کرانے میں کامیاب ہوجائیں گے۔
بین الاقوامی ایٹمی توانائی ایجنسی کے ڈائریکٹر جنرل رافیل گروسی نے ،منگل کو برسلز میں یورپی پارلیمنٹ کی سیکیورٹی اور دفاعی ذیلی کمیٹی کے ارکان کے سامنے خطاب کرتے ہوئےکہا کہ اسلامی جمہوریہ ایران نے 70 کلو گرام یورینیم کو 60 فیصد تک خالصتاً افزودہ کیا ہے۔ اس کے پاس 20 فی صد تک افزدوہ مزید 1000 کلو گرام یورینیم موجود ہے، جو اس وقت ایک نہیں بلکہ کئی جوہری ہتھیاروں کی تیاری کے لیے کافی جوہری مواد ہے۔
جوہری ہتھیار بنانے کے لیے 90 فیصد افزودگی ضروری ہوتی ہے۔ لیکن گروسی نے پینل کو بتایا کہ ایران کے پاس افزودہ یورینیم کے بڑے ذخیرے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس کے پاس جوہری ہتھیار بھی ہے۔
گروسی نے یہ بھی بتایا کہ IAEA اب ایران کے جوہری پروگرام کی نگرانی نہیں کر رہا ہے کیونکہ ایرانی حکومت نے ایجنسی کے 27 کیمروں کو غیر فعال کر دیا ہے جو اس کے اعلان کردہ جوہری مقامات پر نصب کیے گئے تھے۔
برطانیہ، چین، فرانس، جرمنی، روس اور امریکہ سمیت چھ عالمی طاقتوں نے ایران کے ساتھ ، ایک مشترکہ جامع ایکشن پلان پر دستخط کیے تھے جس کا مقصد ایران کے جوہری پروگرام کو محدود کر نا تھا اور بدلے میں اس پر سے امریکی اور بین الاقوامی پابندیوں اٹھائی جانی تھیں۔
لیکن 2018 میں سابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے دور میں امریکہ اس معاہدے سے دستبردارہوگیا اور اس نے یہ دلیل دی کہ یہ منصوبہ غیر موثر ہے ۔ اس کے بعد ٹرمپ انتظامیہ نے ایران کے خلاف مزید سخت پابندیاں نافذ کر دیں اور بین الاقوامی منڈیوں میں تیل فروخت کرنے کی ایران کی صلاحیت کو محدود کر دیا۔
امریکہ کے علاوہ ،معاہدے پر دستخط کرنے والے ملکوں نے 2021 سے بات چیت کے کئی دور کیے ہیں جن کا مقصد اصل معاہدے کو بحال کرنا ہے،لیکن کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوا۔