اسلام آباد (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) دوسری عالمی جنگ میں جاپانی شہروں پر امریکی جوہری حملوں نے انسانیت اور قدرتی ماحول دونوں ہی کو ملیامیٹ کر کے رکھ دیا۔ تقریبا آٹھ دہائیاں گزر جانے کے بعد بھی ہیروشیما اور ناگا ساکی اس تباہی کے اثرات سے باہر نہیں نکل سکے۔
دوسری عالمی جنگ کے ماحول پر اثرات پہلی عالمی جنگ سے بھی زیادہ بھیانک تھے۔ اس جنگ میں انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ جوہری حملے کیے گئے، جس سے نہ صرف ایک لاکھ سے زیادہ انسان آن کی آن میں موت کی آغوش میں چلے گئے بلکہ اس سے ماحولیات پر بھی دورس نتائج مرتب ہوئے۔
اس جنگ کے ماحول پر اثرات آج بھی دیکھے جا سکتے ہیں۔ کئی ماہرین شمالی افریقہ میں ریت کے طوفانوں اور امریکہ کے جنگلوں میں لگنے والی وقت بے وقت آگ کے تانے بانے بھی اس ماحولیاتی بربادی سے جوڑتے ہیں، جو دوسری عالمی جنگ کی وجہ سے رونما ہوئی تھی۔ اس جنگ سے یورپ، جاپان اور اس کے زیر انتظام بحرالکاہل کے جزیرے سب سے زیادہ متاثر ہوئے۔ تباہی کے سب سے زیادہ مناظر یورپ میں نظر آئے جہاں صرف ناروے میں پندرہ لاکھ ایکٹر پر مشتمل علاقے میں موجود جنگلات، فصلیں، گھر اور جنگلی حیات تباہی کا شکار ہوئے۔
اتحادیوں اورجرمنی کا ماحولیات پر وار
جنگ کے دوران جرمن فوج اپنے حریف اتحادیوں کے لیے پیداوار کا کوئی زریعہ باقی نہیں چھوڑنا چاہتی تھی۔ لہذا نیدر لینڈز میں جرمن فوجیوں نے زرعی زمین کو نمک والے پانی سے بھگودیا، جس سے اس مقبوضہ ملک کی سترہ فیصد زرعی زمین تباہی کا شکار ہوئی۔ اتحادی افواج نے بھی ماحولیات کا جنازہ نکالنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی اور انہوں نے جرمنی میں روہر کے علاقے میں دو بڑے ڈیموں کو بمباری کا نشانہ بنایا۔
جرمنی کی پیداواری صلاحیت برباد کرنے کے لیے اور ہٹلر کو اضافی ہتھیاروں اور جنگی سازوسامان اور آلات کی تیاری سے روکنے کے لئے اتحادیوں نے بھی ہر ماحول دشمن حربہ استعمال کیا۔ جرمن ڈیموں کے تباہ ہونے سے سات لاکھ پچاس ہزار ایکٹر زرعی زمین برباد ہوئی جب کہ بڑے پیمانے پر مال مویشی بھی مارے گئے۔
جرمنی کے خلاف امریکی بمباری کے نتیجے میں چار لاکھ پچاسی ہزار رہائشی عمارتیں مکمل طور پر تباہ ہوئیں اور چار لاکھ پندرہ ہزار رہائش کے قابل نہ رہیں۔ تباہ ہونے والی یہ عمارتیں جرمنی کی مجموعی رہائشی سہولیات کے بیس فیصد حصے پر مشتمل تھیں۔ اس بمباری سے لگنے والی آگ کی حدت اور ہولناکیوں کےسامنے فائر بریگیڈ کا عملہ بھی بے بس تھا۔
آبی حیات کی تباہی
بحرالکاہل میں بہت ساری آبی حیات اور انواع اقسام کے دیگر جانور اور پودوں سے بھر پور متعدد جزائر جاپان کے قبضے میں تھے۔ امریکی فوج نے یہاں جو جنگی حربے استعمال کیے، ان سے یہاں کے ماحول کو بہت نقصان ہوا۔ انہوں نے بلڈوزر، آگ کے گولے پھینکے والے آلات اور ٹینکوں کا بے دریغ استعمال کیا۔ ان جزیروں پر فضائی پٹیوں یا ائیر فیلڈز کے قیام سے نہ صرف جنگلات کو نقصان پہنچا بلکہ اس سے زیر آب مونگے کے جنگلات بھی تباہ ہوئے۔
ان جنگی مہمات میں پرندوں کی کئی اقسام ہلاک ہوئیں اور کئی بعد میں بالکل ہی معدوم ہو گئیں۔ آبی حیات کو بھی اس پوری جنگی مہم نے بری طرح متاثر کیا۔ ایک اندازے کے مطابق بحر الکاہل کی تہہ میں تقریباً ایک لاکھ دس ہزار کلو گرام زہریلی مسٹرڈ گیس پھینکی گئی۔ اس کے ساتھ ساتھ تیل کے بے شمار گیلن بھی بحرالکاہل میں انڈیلے گئے۔ اس طرح انسانوں کے درمیان ہونے والی اس خونریز جنگ نے آبی مخلوق کو بھی خوفناک تباہی کا شکار کیا۔
جوہری حملے
ماحولیاتی تباہی کے سب سے بھیانک اثرات جاپان میں دیکھنے میں آئے جہاں امریکہ نے ہیروشیما اور ناگاساکی کے شہروں پر جوہری بم گرائے۔ اس کے نتیجے میں ان شہروں کا درجہ حرارت سورج کے اندرونی حصے کی مانند گرم ہو گیا۔ متاثرہ علاقوں میں پانی کے تمام ذرائع آلودہ ہوگئے اور تمام عمارتیں آن کی آن میں ملبے کا ڈھیر ہوگئیں۔ تابکاری کے ذرات زمین اور پانی میں سرایت کر جانے کی وجہ سے زمین درختوں اور جانوروں کے لئے ناکارہ ہوگئی۔ جاپان کے ماحول پر ان دھماکوں کے جو اثرات پڑے، وہ آج بھی ان سے نمٹنے کی کوشش کررہا ہے۔ ایک اندازے کے مطابق جاپان میں جنگلات کا پندرہ فیصد اس جنگ سے تباہ ہوا۔
ہیروشیما اور ناگاساکی پر جوہری حملوں کی وجہ سے بہت سے لوگ امریکہ کی دیگر جاپانی شہروں پر کی گئی خوفناک بمباری بھول گئے۔ جرنل آف جیو گرافیکل ریسرچ کی ایک تحقیق کے مطابق امریکہ نے ہیروشیما اور ناگاساکی سمیت 69 جاپانی شہروں پر بمباری کی۔ جنگی طیاروں سے کی جانے والی اس بمباری کی وجہ سے چار سو اکسٹھ مربع کلو میٹر کا علاقہ آگ کی لپیٹ میں آکر بھسم ہو گیا۔
کاربن کے اخراج میں اضافہ
اس خوفناک جنگ کے نتیجے میں فضا میں کاربن ڈائی آکسائید کا اخراج بھی بہت بڑھا۔ مثال کے طور پر سن 1750ء میں کاربن کا عالمی اخراج صرف 9.35 میڑک ٹن تھا، جو 1939 ء میں کئی گنا بڑھ کر4.44 بلین میٹرک ٹن ہوگیا اور 1944ء میں یہ سطح 5.11 بلین میٹرک ٹن تک جا پہنچی۔ 1945ء میں کئی محاذوں پر جنگ بندی ہوچکی تھی لہذا کاربن کا اخراج کم ہو کر4.24 بلین میٹرک ٹن پر جا پہنچا۔
دوسری عالمی جنگ سے ماحولیات کو پہنچنے والے نقصانات کا ابھی تک صیح طور پر اندازہ نہیں لگایا گیا ہے کیونکہ جنگ کے معاملات دنیا کے کئی ممالک میں قومی راز سمجھے جاتے ہیں۔ جامعات اور تعلیمی اداروں میں تحقیق کے لئے فنڈز کی ضرورت ہوتی ہے اور کئی تنظیمیں ماحول پر جنگ کی تباہ کاریوں کے اثرات سے متعلق تحقیقاتی مطالعوں کے لیے فنڈز مہیا نہیں کرتیں۔ ان نقصانات پر سائنسی تحقیق کو بھی اور شعبوں کی نسبت اتنی ترجیح نہیں دی جاتی۔
سرد جنگ کے دوران امریکہ اور سوویت یونین نے ان نقصانات کو صیح معنوں میں عوام تک پہنچنے نہیں دیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے دوان ماحولیات کو پہنچنے والے نقصانات کا مکمل احاطہ کیا جائے۔ اقوام متحدہ، یورپی یونین اور دوسری تنظیمیں اس حوالے سے مالی معاونت فراہم کریں جب کہ بین الاقوامی ماحولیاتی تنظیموں کو بھی اس حوالے سے کام کرنا چاہیے۔
سرد جنگ کے دوران امریکہ اور سوویت یونین نے ان نقصانات کو صیح معنوں میں عوام تک پہنچنے نہیں دیا۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ دوسری جنگ عظیم کے دوان ماحولیات کو پہنچنے والے نقصانات کا مکمل احاطہ کیا جائے۔ اقوام متحدہ، یورپی یونین اور دوسری تنظیمیں اس حوالے سے مالی معاونت فراہم کریں جب کہ بین الاقوامی ماحولیاتی تنظیموں کو بھی اس حوالے سے کام کرنا چاہیے۔