نئی دہلی (ڈیلی اردو/اردو/وی او اے) بھارت کی سپریم کورٹ نے پیر کو نفرت انگیز بیانات سے متعلق ایک کیس کی سماعت کرتے ہوئے کہا کہ بھارت جیسے سیکولر ملک میں مذہب کی بنیاد پر منافرت پھیلانے اور جرائم کی گنجائش نہیں ہے۔ اس پر کوئی سمجھوتا نہیں کیا جا سکتا۔
سپریم کورٹ نے ملک میں بڑھتی ہوئی مبینہ منافرت کو ایک مسئلہ قرار دیتے ہوئے کہا کہ اس کا حل اسی وقت نکل سکتا ہے جب حکومت خود اسے ایک مسئلہ سمجھے۔
جسٹس کے ایم جوزف اور بی وی ناگ رتنا پر مشتمل بینچ نے کہا کہ جب نفرت انگیز جرائم کے خلاف کارروائی نہیں کی جاتی تو پھر ایک ایسا ماحول پیدا ہوتا ہے جو بہت خطرناک ہوتا ہے۔ لہٰذا ہماری زندگیوں سے منافرت کا خاتمہ ہونا چاہیے۔
بینچ نے زور دے کر کہا کہ یہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ ہر شہری کو ایسے جرائم سے تحفظ فراہم کرے۔
بینچ نے اتر پردیش (یو پی) حکومت کی جانب سے پیش ہونے والے ایڈیشنل سولیسیٹر جنرل کے ایم نٹراج کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ کیا آپ اس بات کو تسلیم نہیں کریں گے کہ ملک میں مذہب کی بنیاد پر نفرت انگیز جرائم ہو رہے ہیں؟
عدالت کا کہا تھا کہ جب آپ ایسے واقعات کے خلاف ایکشن لیں گے تو بھارت ترقی یافتہ ممالک کے برابر آئے گا۔
عدالت نے ایک مسلمان شخص کی درخواست پر سماعت کرتے ہوئے یہ ریمارکس دیے۔ اس درخواست میں الزام عائد کیا گیا تھا کہ وہ جولائی 2021 میں نوئڈا سے بذریعہ کار علی گڑھ جا رہے تھے کہ کچھ مشتبہ افراد نے مذہب کی بنیاد پر ان پر حملہ کیا اور بدسلوکی کی۔ اس شخص کے مطابق پولیس نے اس کی شکایت درج نہیں کی تھی۔
بینچ نے کہا کہ اگر کوئی شخص پولیس کے پاس جاتا ہے اور کہتا ہے کہ میں نے ٹوپی پہن رکھی تھی، میری داڑھی نوچی گئی اور مذہب کی بنیاد پر مجھے گالیاں دی گئیں اور پھر بھی پولیس اس کی شکایت درج نہیں کرتی ہے تو یہ ایک مسئلہ ہے۔
حالیہ دنوں میں ایک بار پھر منافرت پر مبنی واقعات میں اضافہ دیکھا جا رہا ہے۔ یوگا گرو رام دیو نے دو فروری کو راجستھان کے باڑمیر میں ہندوؤں کے ایک اجتماع میں مسلمانوں اور عیسائیوں کے خلاف مبینہ طور پر اشتعال انگیز تقریر کرتے ہوئے کہا کہ مسلمان نماز پڑھتے ہیں اور دہشت گردی کرتے ہیں۔
انہوں نے مسلمانوں پر ہندو عورتوں کے اغوا اور ہندوؤں کا مذہب تبدیل کرانے میں ملوث رہنے کا بھی الزام عائد کیا۔
پانچ فروری کو باڑمیر کے ایک مسلمان کی شکایت پر مقامی پولیس نے رام دیو کے خلاف مذہب کی بنیاد پر دو طبقات کے درمیان دشمنی پیدا کرانے اور دوسروں کے مذہبی جذبات کو ٹھیس پہنچانے کی دفعات کے تحت رپورٹ درج کی تھی۔
دریں اثنا اتوار کو دہلی کے جنتر منتر پر متعدد ہندو تنظیموں کی جانب سے منعقد کیے جانے والے ایک پروگرام میں مبینہ طور پر مسلمانو ں اور عیسائیوں کے خلاف اشتعال انگیزی کی گئی۔
اس پروگرام کی ایک ویڈیو سوشل میڈیا پر وائرل ہوئی ہے جس میں زعفرانی رنگ کے لباس میں ملبوس ایک معمر سادھو مہا منڈلیشور سوامی بھکت ہری سنگھ کہتے ہیں کہ تم کب مسلمانوں اور عیسائیوں کو مارو گے، کاٹو گے؟
انہوں نے یہ بھی کہا کہ سبزی کاٹنے والی چھری سے کام نہیں چلے گا، تلوار اور بندوق رکھو۔
اس معاملے پر دہلی پولیس کی جانب سے تاحال کوئی کارروائی نہیں ہوئی ہے البتہ پولیس نے اس تقریر کی ویڈیو پوسٹ کرنے پر ایک آن لائن پورٹل ’مولیٹکس‘ کو امن و امان کو متاثر کرنے والے جارحانہ بدنیتی پر مبنی اشتعال انگیز مواد پوسٹ کیے جانے کی دفعات کے تحت نوٹس جاری کیا ہے۔
مولیٹکس کے بانی ڈائریکٹر انودیپ جگلان نے سوشل میڈیا پر ایک پوسٹ میں کہا کہ وہ سمجھ نہیں پا رہے کہ انہیں کیوں نوٹس جاری کیا گیا؟
اس سے قبل 31 جنوری کو ممبئی میں ایک تنظیم ’سکل ہندو سماج‘ کی جانب سے منعقدہ ایک ریلی میں مسلمانوں کے سماجی و اقتصادی بائیکاٹ کی اپیل کی گئی۔
انسانی حقوق کے کارکن جہاں ایک طرف ملک میں بڑھتی مبینہ نفرت انگیزی کی مذمت کرتے ہیں، وہیں وہ اس کے خلاف سپریم کورٹ کے ریمارکس کا خیرمقدم بھی کرتے ہیں۔
انسانی حقوق کی ایک سرگرم تنظیم ’ایکٹ ناؤ فار ہارمونی اینڈ ڈیموکریسی‘ کی بانی ڈائریکٹر شبنم ہاشمی کا کہنا ہے کہ گزشتہ آٹھ نو برس میں تمام جمہوری اداروں کو کمزور کیا گیا ہے ۔ اس کے باوجود سپریم کورٹ کے ایسے ریمارکس سے انسانی حقوق کے کارکنوں اور جمہوریت کے لیے کام کرنے والوں کو اخلاقی طاقت ملتی ہے لیکن زمینی حقائق مختلف ہیں۔
وائس آف امریکہ سے گفتگو میں ان کا کہنا تھا کہ اب مذہب کی بنیاد پر نفرت پھیلانے والوں کی تعداد بہت زیادہ بڑھ گئی ہے۔ ان کے بقول اس کے لیے خاصی رقوم خرچ کی جا رہی ہیں۔
انہوں نے کہا کہ بھارت کی پولیس بڑی حد تک فرقہ پرست ہو گئی ہے۔ وہ اقلیتوں، دلتوں اور خواتین کی مخالف ہے۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ پولیس پر حکومت کا بہت دباؤ ہے اور اس وجہ سے بھی وہ کارروائی نہیں کرتی۔ اگر کوئی پولیس افسر کسی کے خلاف کارروائی کرتا بھی ہے تو اس کا تبادلہ کر دیا جاتا ہے یا کسی معاملے میں پھنسا کر جیل میں ڈال دیا جاتا ہے۔
ان کے خیال میں اگر 2024 کے پارلیمانی انتخابات میں حکمران جماعت کی شکست نہیں ہوتی تو ملک کی سیکولر شناخت کو بہت زیادہ خطرات لاحق ہو جائیں گے۔
ان کے بقول ابھی تو ہم “نیم فسطائی” ملک میں رہتے ہیں لیکن پھر یہ” مکمل طور پر فاشسٹ ” ملک بن جائے گا۔
ان کا مزید کہنا تھا کہ ابھی تو آئین بچا ہوا ہے اور یہی وجہ ہے کہ سیکولر نظریات کے حامل افراد اپنی لڑائی لڑ پاتے ہیں لیکن اگر آئین کو بدل دیا گیا جس کی بات بار بار کی جاتی ہے تو پھر کیا صورت حال ہوگی کہا نہیں جا سکتا۔
انسانی حقوق کی تنظیم ’پیپلز یونین فار سول رائٹس‘ (پی یو سی ایل) کے ڈائریکٹر این ڈی پنچولی ایڈووکیٹ بھی نفرت انگیزی کے خلاف سپریم کورٹ کے ریمارکس کا خیرمقدم کرتے ہیں لیکن یہ بھی کہتے ہیں کہ اب عدالتوں سے ایسے بہت سے فیصلے بھی ہونے لگے ہیں جو مختلف امور میں موجودہ حکومت کے مؤقف کی تائید کرتے ہیں۔
ان کا یہ بھی کہنا تھا کہ دوسرے مذاہب کے خلاف نفرت کے لیے کئی دہائیوں سے ذہن سازی کی کوشش کی جا رہی تھی جو اب بڑی حد تک کامیاب ہو گئی ہے۔
واضح رہے کہ اس سے قبل گزشتہ سال 21 اکتوبر کو سپریم کورٹ نے دہلی، اترپردیش اور اتراکھنڈ کی حکومتوں کو ہدایت کی تھی کہ وہ نفرت انگیزی کے خلاف شکایت کا انتظار کیے بغیر کارروائی کریں۔
سپریم کورٹ نے تین فروری کو ہیٹ اسپیچ کے ایک معاملے پر سماعت کرتے ہوئے کہا کہ اس کے آرڈر کے باوجود نفرت انگیز تقریروں کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہوتی۔ اگر عدالت سے بار بار یہ کہا جائے کہ وہ ایسے بیانات کو روکنے کے لیے کچھ کرے تو عدالت کی بار بار سبکی ہوگی۔
حکومت نفرت انگیزی کے خلاف کارروائی نہ کرنے کے الزامات کی تردید کرتی ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ جو بھی امن و امان کو تباہ کرنے کی کوشش کرے گا اس کے خلاف ایکشن لیا جائے گا۔