برسلز (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) یورپی یونین کے رکن ممالک کے سربراہان خطے میں غیر قانونی مہاجرین کی بڑھتی ہوئی تعداد کے بارے میں تشویش کا شکار ہیں اور اس میں کمی لانا چاہتے ہیں لیکن کیسے؟
جمعرات 9 فروری کو برسلز میں منعقدہ یورپی یونین سربراہی اجلاس میں روس اور یوکرین کی جنگ کا موضوع مرکزی اہمیت کا حامل تھا۔یورپی یونین کے ممبر ممالک کے سربراہان نے اس جنگ کے مختلف پہلوؤں، خاص طور سے یوکرین کے لیے مالی اور اسلحہ جات کی فراہمی، یورپی ممالک پر اس کے اثرات، توانائی کا بحران اور اس جیسے دیگر موضوعات پر تبادلہ خیال کیا۔ اس اجلاس کی اہم ترین بات یہ تھی کہ اس میں یوکرین کے صدر وولودیمیر زیلنسکی نے یورپی یونین کے قریب تمام 27 اراکین ممالک کے سربراہان مملکت اور حکومت میں سے ہر ایک کے ساتھ نجی بات چیت کی اور بیلجیم کے بادشاہ فلپ نے بھی ان کا استقبال کیا، وہ جمعرات کی شام کو واپس کییف روانہ ہو گئے۔ اس سمٹ کے تمام شرکاء نے انہیں یورپی یونین کی یکجہتی اور حمایت کی یقین دہانی کرائی۔
نقل مکانی کرنے والوں کی تعداد میں اضافہ
زیلنسکی کے جانے کے بعد یورپی یونین اس سربراہی اجلاس میں یورپ کی پیچیدہ مشترکہ مائیگریشن پالیسی پر بات چیت ہوئی۔ اس موقع پر یورپی کمیشن کی صدر اُرزولا فون ڈیرلائن نے حکومتی سربراہان کو صورتحال کی سنگینی سے آگاہ کرنے کے لیے کچھ ‘ڈسپلے بورڈز‘ تیار کیے تھے۔ 2022 ء میں یورپی یونین میں پناہکے متلاشیوں کی تعداد میں اُس سے پہلے سال کے مقابلے میں 46 فیصد کا زبردست اضافہ نوٹ کیا گیا تھا۔
نو لاکھ چوبیس ہزار پناہ کے متلاشیوں کے علاوہ، تقریباً 40 لاکھ یوکرینی باشندے جرمنی آکرپناہگزینوں کی طور پر زندگی گزار رہے ہیں۔ ”ہجرت ایک یورپی چیلنج ہے جس کے لیے یورپی ردعمل کی ضرورت ہے اور اس پر سربراہی اجلاس کے دوران ایک بار پھر زور دیا گیا۔‘‘ یہ کہنا تھا یورپی کمیشن کی صدر فون ڈیئرلائن کا۔
جرمن چانسلر اولاف شولس، جو تارکین وطن کی زیادہ تعداد کی وجہ سے مقامی طور پر دباؤ کا شکار ہیں، نے برسلز میں کہا کہ ،”مشترکہ نقطہ نظر کو فروغ دینا ضروری ہے اور یہ ممکن ہے۔ تارکین وطن کی تعداد کم کرنے کے لیے مشترکہ اہداف کا تعین کر کے اس سال اُس پرعمل در آمد کرنا ممکن ہے۔‘‘
یورپی یونین کم از کم چھ سالوں سے کوشش کر رہی ہے کہ پہلے سے طے شدہ مقاصد یعنی نقل مکانی کے اعداد و شمار میں کمی کو عملی قوانین میں تبدیل کیا جائے۔ ای یو کمیشن نے متعدد قانون سازی کی تجاویز اور معاہدوں کو بار بار سامنے رکھا تاہم اب تک رکن ممالک کسی اہم نئے ضوابط پر متفق نہیں ہو سکے ہیں۔
یورپی یونین کی نئی تجاویز
برسلز میں ہونے والے اس سربراہی اجلاس میں، یورپی کمیشن نے یورپی یونین کی بیرونی سرحدوں کے بہتر تحفظ کی تجویز پیش کی۔ اس کا مقصد ہے ”گرین بارڈر‘‘ یا ایسی سرحدی گزر گاہوں کو روکنا جہاں سے غیر قانونی ترکین وطن آسانی سے یورپی سرحدوں میں داخل ہو جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ، وطن واپسی کے معاہدوں پر تارکین وطن کے آبائی ممالک اور ٹرانزٹ ممالک کے ساتھ مذاکرات کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ علاوہ ازیں پہلی بار، یورپی یونین کمیشن نے یہ واضح طور پر تجویز کیا ہے کہ وطن واپسی کے معاہدوں کو انجام دینے کے لیے ترقیاتی امداد، تجارتی معاہدوں اور ویزا کے ضوابط کو بروئے کار لایا جائے۔ وفاقی حکومت نے اب تک اس طرز عمل کی مزاحمت کی ہے۔ چانسلر شولس نے کہا کہ وطن واپسی تب ہی کامیاب ہو سکتی ہے جب اصل ممالک کے ساتھ ”منصفانہ معاہدے‘‘ طے پا جائیں۔
کیا مزید جلاوطنی مسئلے کا حل ہو سکتی ہیں؟
سربراہی اجلاس کے شرکاء نے پناہ گزینوں کی ملک بدری اور وطن واپسی کے کیسز کی تعداد بڑھانے کے حق میں اپنے موقف کو بار بار دہرایا۔ مجموعی طور پر پناہ کے متلاشی افراد کی ان کے آبائی وطن واپسی کی شرح 21 فیصد ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ 2021 ء میں جن 3 لاکھ چالیس ہزار غیر ملکیوں کو EU چھوڑنے کو کہا گیا تھا ان میں سے صرف 70 ہزار پانچ سو EU چھوڑ گئے۔
سربراہی اجلاس کی قراردادوں کو پڑھنے کے بعد بھی یہ واضح نہیں ہوتا کہ مزید ملک بدری کے مقاصد کیسے حاصل کیے جائیں گے۔ مالٹا میں واقع یورپی یونین کی پناہ گزین ایجنسی ” EASO ‘‘ سے کہا گیا ہے کہ وہ ملک بدری کے لیے ایسے رہنما قوانین تیار کرے جو ملک بدری کے فیصلوں کو باہمی طور پر تسلیم کرنے کے لیے مدد گار ثابت ہوں اور سربراہی اجلاس کے اعلامیے کے مطابق، تمام رکن ممالک کو بھی ان قوانین کی پابندی کرنی چاہیے۔