پنجاب: ننکانہ صاحب میں مشتعل افراد نے تھانے سے مبینہ توہین مذہب کے ملزم کو نکال کر ہلاک کردیا

لاہور (ڈیلی اردو/بی بی سی) پاکستان کے صوبہ پنجاب کے ضلع ننکانہ صاحب میں مشتعل ہجوم نے توہینِ مذہب کا الزام لگا کر ایک شخص کو قتل کر دیا ہے۔

یہ واقعہ ننکانہ صاحب کی تحصیل واربرٹن میں پیش آیا۔

پولیس کی جانب سے مقتول شخص کا نام وارث بتایا گیا ہے۔

بی بی سی کو موصول ہونے والی ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ واربرٹن تھانے کے باہر مشتعل افراد کا ایک ہجوم جمع ہے جو پولیس اہلکاروں سے ملزم ان کے حوالے کرنے کا مطالبہ کرتا ہے۔

اسی دوران سیڑھیوں پر اوپر کی جانب کھڑے کچھ افراد ہجوم کو قائل کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جو بھی کارروائی ہو گی وہ قانون کے مطابق ہو گی جس پر ہجوم ان کی بات ماننے سے انکار کر دیتا ہے۔

پھر ویڈیوز میں دیکھا جا سکتا ہے کہ کچھ افراد تھانے کے گیٹ کے اوپر موجود ایک خالی جگہ سے اندر داخل ہو کر تھانے کا دروازہ کھول دیتے ہیں اور پھر واربرٹن تھانے کے اندر مشتعل ہجوم کی جانب سے توڑ پھوڑ کی جاتی ہے۔

ریجنل پولیس افسر شیخوپورہ بابر سرفراز الپا نے بی بی سی سے اس واقعے کے متعلق بات کرتے ہوئے بتایا کہ یہ واقعہ سنیچر کی صبح کا ہے۔

اُنھوں نے بتایا کہ اس شخص پر قرآن کی توہین کا الزام تھا جس پر لوگوں نے اسے ایک جگہ پکڑ کر بند کیا اور پولیس کو اطلاع دی۔

آر پی او شیخوپورہ کا کہنا تھا کہ واقعے کے فوراً بعد علاقے میں اس متعلق یہ بات پھیلنی شروع ہو گئی اور علاقے میں توہین مذہب سے متعلق اعلانات ہونے لگے۔ ان کے مطابق جب پولیس نے اس شخص کو حراست میں لیا اور اسے پولیس سٹیشن لے جانے لگی تو ہجوم بھی پولیس کے پیچھے پیچھے چلنے لگا۔

آر پی او بابر سرفراز نے بتایا کہ پولیس قانونی تقاضے پورے کر رہی تھی اور ہجوم کے ساتھ بات چیت جاری تھی کہ وہ منتشر ہو جائیں اور قانون اپنا راستہ لے لیکن پھر لوگ اشتعال میں آ گئے اور مشتعل ہجوم نے اس شخص کو تھانے سے چھڑا کر باہر لے جا کر تشدد کر کے ہلاک کر دیا۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا فی الوقت کوئی گرفتاری عمل میں آئی ہے تو ان کا کہنا تھا کہ ابھی ویڈیوز وغیرہ کی مدد سے ملوث لوگوں کی شناخت کا عمل جاری ہے جس کے بعد گرفتاریاں ہوں گی۔

پاکستان کے وزیرِ اعظم شہباز شریف نے اس واقعے کی تحقیقات کا حکم دیتے ہوئے کہا ہے کہ قانون کی حاکمیت کو یقینی بنایا جانا چاہیے اور کسی کو قانون پر اثرانداز ہونے کی اجازت نہیں۔
آر پی او شیخوپورہ بابر سرفراز نے پاکستان کے نجی چینل اے آر وائے نیوز سے بات کرتے ہوئے کہا کہ پولیس اس سے پہلے بھی ملزم کو سنہ 2019 میں اس الزام کے تحت گرفتار کر چکی ہے مگر وہ جون 2022 میں بری ہو گیا تھا۔

دریں اثنا آئی جی پنجاب ڈاکٹر عثمان انور نے ننکانہ صاحب میں شہریوں کی جانب سے توہینِ مذہب کے الزام میں اس شخص کی ہلاکت کے واقعے کا نوٹس لیتے ہوئے ڈی ایس پی ننکانہ صاحب سرکل نواز ورک اور ایس ایچ او واربرٹن فیروز بھٹی کو معطل کر دیا ہے۔

آئی جی نے اعلیٰ پولیس عہدیداران کو جائے وقوعہ پر پہنچ کر انکوائری رپورٹ پیش کرنے کا حکم دیا ہے۔

دوسری جانب پاکستان علماء کونسل کے سربراہ اور وزیر اعظم کے نمائندہ خصوصی برائے بین المذاہب ہم آہنگی حافظ طاہر محمود اشرفی نے کہا ہے کہ توہینِ مذہب کے ملزم کو تھانے سے نکالنا اور تھانے پر حملہ کر کے اس کو قتل کر دینا قابل مذمت اور ناقابل قبول ہے۔

اُنھوں نے کہا کہ اگر کسی نے جرم کیا ہے تو اس کوعدالت نے سزا دینی ہے، کسی گروہ، فرد یا جماعت کو یہ حق حاصل نہیں ہے کہ وہ خود ہی عدالت بن جائے، خود ہی جلاد بن جائے اور خود ہی فیصلے جاری کرے۔

واضح رہے کہ پاکستان میں توہینِ مذہب ایک نہایت حساس موضوع ہے اور اس الزام کی زد میں آنے والے کئی افراد قانونی کارروائی پوری ہونے سے قبل ہی مشتعل ہجوم کے ہاتھوں مارے جا چکے ہیں۔

کئی واقعات میں یہ بھی پایا گیا ہے کہ مقتولین پر یہ الزام کسی ذاتی عناد کی وجہ سے لگایا گیا تھا جس کی تازہ مثال کراچی ایئرپورٹ پر پیش آنے والا ایک واقعہ ہے جس میں مسیحی سکیورٹی افسر کو کہا گیا کہ اگر اُنھوں نے من پسند افراد کی گاڑی ایئرپورٹ کے احاطے میں نہ جانے دی تو ان پر توہینِ مذہب کا الزام لگا دیا جائے گا۔

Share on Social

اپنا تبصرہ بھیجیں