اسلام آباد (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ نئے قانون کا مقصد فوج اور عدلیہ کے خلاف تنقید کو تقریباﹰ ناممکن بنا دینا ہے۔ نئی ترمیم کے بعد ان دونوں ادارو پر تنقید کے جرم میں وارنٹ کے بغیر گرفتاری اور پانچ سال تک قید کی سزا دی جاسکے گی۔
حکومت پاکستان ملکی فوج اور عدلیہ پر تنقید کو قابل تعزیر جرائم کی فہرست میں شامل کرنے کے لیے قانون میں تبدیلی کی خواہش مند ہے۔ اس نئی مجوزہ قانونی ترمیم کے تحت فوج اور عدلیہ کے ادارے اور شخصیات پر تنقید کے جرم میں پانچ سال قید تک کی سزا دی جاسکے گی لیکن ملک کے کئی حلقوں میں یہ بحث گرم ہے کہ اس طرح کے قوانین پہلے ہی ملک میں موجود ہیں تو اس نئے قانون کی کیا ضرورت ہے۔
واضح رہے کہ حکومت ملکی فوجداری قوانین میں ترمیم کرنا چاہتی ہے، جس کے تحت فوج یا عدلیہ کی تحقیر کرنے یا تمسخر اڑانے والے کو قید اور جرمانے کی سزا کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس بل پر وفاقی کابینہ نے گزشتہ ہفتے ایک کمیٹی بھی بنائی تھی، جو اس کے مندرجات کا جائزہ لے گی۔
نیا قانون لانے کی ممکنہ وجوہات
ماہرین کے خیال میں پاکستان کے سن 1973 کے آئین کے تحت پہلے ہی فوج اور عدلیہ پر تنقید قانونی طور پر بہت مشکل ہے۔ مسلم لیگ نون کے گزشتہ دور حکومت 2013 سے 2018 کے درمیان بھی ایک ایسا قانون متعارف کرایا گیا تھا، جس کی مدد سے ان اداروں پر تنقید میں مزید دشواری پیدا کردی گئی تھی جب کہ عمران خان کی حکومت نے بھی پاکستان الیکٹرونک کرائمز ایکٹ میں ترمیم کرنے کی کوشش کی تھی لیکن اس میں وہ کامیاب نہیں ہو سکی تھی۔
قانونی ماہرین کا کہنا ہے کہ نئے قانون کا مقصد فوج اور عدلیہ کے خلاف تنقید کو تقریباﹰ ناممکن بنا دینا ہے۔ آئینی و قانونی امور کے ایک ماہر محمد آفتاب عالم ایڈووکیٹ کا کہنا ہے کہ پاکستان پینل کوڈ میں پہلے ہی ایسے قوانین موجود ہیں، جو ان اداروں پر تنقید کی صورت میں سزاؤں کے لیے لاگو کیے جاسکتےہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”پاکستان پینل کوڈ میں 499 سیکشن موجود ہے، جس کے تحت اگر کوئی کسی شخص کسی پر دشنام طرازی کرتا ہے یا بے بنیاد الزام لگاتا ہے تو اس کو سزا دی جاسکتی ہے لیکن کیونکہ اس قانون میں بہت سارے سیف گارڈ ہیں جس کی وجہ سے ملزم کو فائدہ ہوتا ہے۔”
محمد آفتاب عالم کے مطابق حکومت اب سیکشن 500 اے لانا چاہتی ہے، جس میں عدلیہ اور فوج پرتنقید کو ناقابل ضمانت جرم بنا دیا ہے۔ اس بارے میں وضاحت کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ”سیکشن 499 میں اگر آپ پر الزام لگا ہے تو پولیس آپ کو اس وقت تک گرفتار نہیں کر سکتی جب تک کہ اس کے پاس وارنٹ نہ ہو یا کوئی ایف آئی آر درج نہ ہو لیکن جو ترمیم حکومت لے کر آنا چاہ رہی ہے اگر وہ ترمیم لانے میں کامیاب ہو گئی تو پھر پولیس بغیر ایف آئی آر اور بغیر وارنٹ کے بھی گرفتار کر سکتی ہے۔”
محمد آفتاب عالم نے خدشہ ظاہر کیا کہ اب اگر یہ ترمیمی قانون آجاتا ہے ہے تو پولیس یا دوسرے حکومتی اداروں کو یہ اختیار ہوگا کہ وہ اگر سمجھیں کہ کسی کی تقریر، بیان، ٹویٹ یا چھوٹی سی ویڈیو سے فوج یا عدلیہ کی تحقیر ہوئی ہے تو وہ اپنے طور پر اس شخص کے خلاف ایکشن لے سکتے ہیں۔”
پاکستان، بات کرو یا مرو تک پہنچ چکی ہے
سول اور فوجی عدالتوں میں فوجداری مقدمات کی پیروی کا وسیع تجربہ رکھنے والے ایک وکیل کرنل ریٹائرڈ انعام الرحیم کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کا اس حوالے سے واضح فیصلہ ہے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ” دوہزار چودہ میں سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ دیا تھا کہ پولیس، رینجرز، آئی ایس آئی، ایم آئی یا کوئی بھی ایجنسی کسی بھی شخص کو بغیر ایف آئی آر کے گرفتار نہیں کر سکتی۔ اگر کوئی ہنگامی صورت حال میں گرفتار کیا گیا ہے تو اسے چوبیس گھنٹوں میں عدالت میں پیش کرنا متعلقہ اداروں کی ذمی داری ہے۔”
انتخابات کا کنٹرول
انسانی حقوق کی ایک کارکن صدف خان کا کہنا ہے کہ یہ بڑے افسوس کی بات ہے کہ سیاسی جماعتیں جب اقتدار میں ہوتی ہیں تو وہ اس طرح کے سخت قوانین لے کر آتی ہیں لیکن جب وہ حزب اختلاف میں ہوں تو ایسے قوانین کی بھرپور مخالفت کرتی ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ” ایسا لگتا ہے کہ اس طرح کے قانون کو اس لیے لایا جا رہا ہے تاکہ عام انتخابات کو کنٹرول کیا جاسکے۔ 2018 میں بھی اسی طرح کا ایک قانون لایا گیا تھا، جس کا مقصد بظاہر انتخابات کنٹرول کرنا تھا۔”
قانون کے خلاف مزاحمت
پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس کے سابق سیکرٹری جنرل ناصر زیدی کا کہنا ہے کہ صحافی اس قانون کے سخت خلاف ہیں اور وہ مزاحمت کرینگے۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ”پاکستان فیڈرل یونین آف جرنلسٹس اس ترمیمی قانون کو بالکل نہیں مانتی۔ ملکی اور بین الاقوامی صحافتی تنظیموں جیسے رپورٹرز ود آؤٹ بارڈرز اس کے خلاف ہیں۔ انسانی حقوق کی تنظیموں نے بھی اس قانون کے خلاف آواز اٹھائی ہے۔”
ناصر زیدی کے مطابق ملک میں ایسا قانون موجود ہیں کہ کوئی شخص اگر کسی پر بے بنیاد الزام لگائے تو متاثرہ شخص عدالت کا دروازہ کھٹکھٹائے۔ ” سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ اگر فوج کو یہ محسوس ہوتا ہے کہ کوئی اس پر بے بنیاد الزام لگا رہا ہے تو وہ مروجہ قوانین کے تحت اس کے خلاف مقدمہ درج کرائے اور قانون کو اپنا راستہ لینے دے۔”