قاہرہ (نیوز ڈیسک) دریائے نیل کے فرش سے حال ہی میں ایک عظیم الشان کشتی بہت اچھی حالت میں برآمد ہوئی ہے، اس دریافت سے سیکڑوں سال سے جاری ایک بحث کا خاتمہ ہوگیا جو کہ فراعین کی شاندار کشتیوں کے متعلق تھی۔
یونانی مؤرخ ہیروڈوٹس نے پہلی مرتبہ اپنی کتاب میں اس کا ذکر کیا تھا۔ ہسٹریز نامی یہ کتاب 450 قبل مسیح میں منظرِعام پر آئی تھی۔ اس نے اہرام کے متعلق لکھا تھا کہ انہیں جوڑنے والے پتھروں کے درمیان بال برابر بھی فرق نہیں اور جب دوپہر میں ان پر دھوپ پڑتی ہے تو اہرام سے منعکس ہوکر ایک روشن منظر بناتی ہے جسے دیکھ کر ہوش اڑ جاتے ہیں۔
ہیروڈوٹس نے مصر کی سیر میں یہ بھی کہا تھا کہ اس نے بارس نامی ایک بہت بڑی کشتی دیکھی جس میں لوگ اپنے سامان سمیت ایک جگہ سے دوسری جگہ جایا کرتے تھے تاہم ماہرین کو اس کے ثبوت کی تلاش تھی اور نئی دریافت سے ہیروڈوٹس کے بیان کی تصدیق ہوئی ہے۔
آکسفورڈ سینٹر آف میری ٹائم آرکیالوجی کے ماہر ڈامیان رابنسن نے کہا ہے کہ انہوں نے ایک بڑی کشتی کا 70 فیصد ڈھانچہ برآمد کیا ہے جو اس بات کی تصدیق کرتا ہے کہ فرعون کے عہد میں بڑی تجارتی کشتیاں استعمال ہوتی تھیں۔
سال 2013ء میں روسی اکادمی برائے سائنس سے وابستہ مصری علوم کے ماہر الیگزینڈر بیلوو نے کہا تھا کہ کشتیوں کو یا تو اینٹوں سے بنایا جاتا تھا یا ان پر اینٹوں جیسی ساخت نمایاں تھی۔
اب ماہرین کو دریائے نیل سے ایک ٹوٹی پھوٹی کشتی ملی ہے جسے ماہرین نے شپ 17 کا نام دیا ہے جس کی لمبائی 27 میٹر ہے۔ ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ کشتی کے اندرونی جانب ڈھانچے کی ساخت کچھ اس طرح ہے کہ ان پر انسانی پسلیوں کا گمان ہوتا ہے اور اس سے قبل قدیم کشتیوں میں یہ خدوخال کبھی نہیں دیکھے گئے۔