اسلام آباد (ڈیلی اردو/وی او اے) پاکستان کے وفاقی دارالحکومت اسلام آباد میں بھارت کے زیرِ انتظام کشمیر کے علیحدگی پسند رہنما امتیاز عالم کی ہلاکت کا معاملہ معما بنا ہوا ہے۔
امتیاز عالم کو پیر کی شام اس وقت فائرنگ کرکے قتل کر دیا گیا تھا جب وہ نمازِ مغرب کی ادائیگی کے بعد گھر واپس آ رہے تھے۔
https://twitter.com/ShabbirTuri/status/1627948479828971521?t=HLd7KGJwn9lzyuMBSI8o4Q&s=19
پولیس کے مطابق یہ واقعہ ذاتی دشمنی یا پھر ٹارگٹ کلنگ کا شاخسانہ ہے جس کی تفتیش ابھی جاری ہے۔ امتیاز عالم کی تدفین منگل کو مقامی قبرستان میں کردی گئی ہے۔
پاکستان میں حریت رہنما عبدالحمید لون نے دعویٰ کیا ہے کہ انہیں کالعدم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) سے خطرہ تھا۔
امتیاز عالم کو کیسے قتل کیا گیا؟
اسلام آباد پولیس کے ایس پی حسن جہانگیر وٹو کے مطابق امتیاز عالم مغرب کی نماز پڑھ کر اپنے گھر واپس آ رہے تھے کہ تھانہ کھنہ کے علاقے برما پل کے قریب دو موٹرسائیکل سواروں نے انہیں روکا اور تصدیق کی کہ آپ امتیاز عالم ہیں؟بعدازاں ان پر فائرنگ کر دی گئی جس سے وہ ہلاک ہو گئے۔
حسن جہانگیر وٹو کا کہنا تھا کہ یہ واقعہ ٹارگٹ کلنگ کا بھی ہوسکتا ہے اور عین ممکن ہے کہ کوئی ذاتی دشمنی ہو تاہم اس حوالے سے اب تک پولیس کو کوئی ٹھوس شواہد نہیں مل سکے اور تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے۔
انہوں نے کہا کہ علاقے میں مختلف مقامات کی سی سی ٹی وی فوٹیج حاصل کی جا رہی ہے۔لیکن اب تک امتیاز عالم کی مسجد اور گھر کے قریب کی فوٹیج ملی ہیں تاہم جس جگہ یہ واقعہ پیش آیا اس مقام پر فوٹیج اب تک نہیں مل سکی۔
حسن جہانگیر نے کہا کہ مختلف زاویوں سے اس کیس کا جائزہ لیا جارہا ہے، امتیاز عالم کا پوسٹ مارٹم کرلیا گیا ہے۔ پولیس کے مطابق امتیاز عالم اسی علاقے میں 10 برس سے مقیم تھے۔
بشیر احمد پیر یا امتیاز عالم کون تھے؟
اسلام آباد میں قتل ہونے والے امتیاز عالم کے حوالے سے بھارت کے زیر انتظام کشمیر کے حکام کا کہنا ہے کہ ان کا اصل نام بشیر احمد پیر تھا اور ان کا تعلق کشمیر کے ضلع کپواڑہ سے تھا۔
سرینگر میں وائس آف امریکہ کے نمائندے یوسف جمیل کے مطابق بشیر احمد پیر عرف امتیاز عالم عرف حاجی کا تعلق جموں و کشمیر کے سرحدی ضلع کپواڑہ کے بابرپورہ گاؤں سے تھا۔
بھارتی حکومت نے انہیں اکتوبر 2022 میں غیر قانونی سرگرمیوں کے انسداد سے متعلق قانون یو اے پی اے کے تحت دہشت گر قرار دیا تھا۔
بھارتی وزارت داخلہ کے نوٹی فکیشن میں کہا گیا تھا کہ بشیر احمد پیرعرف امتیاز عالم حزب المجاہدین، لشکر ِطیبہ اور دیگر ایسی تنظیموں کی سرگرمیوں کو آگے بڑھانے میں معاونت کرتے تھے۔
بشیر احمد پیر پر بھی الزام تھا کہ انہوں نے 23 مئی 2019 کو کشمیر میں القاعدہ کی شاخ انصار غزوات الہند کے چیف کمانڈر ذاکر موسیٰ کو قتل کرایا تھا۔
بشیر احمد پیر نے مئی 2017 میں پاکستان نواز حزب المجاہدین کو چھوڑ دیا اور خلافت کے قیام اور شرعی قوانین کے نفاذ کا مطالبہ کیا تھا۔
یوسف جمیل کے مطابق کپواڑہ میں ان کے خلاف مختلف کیسز درج تھے جن میں ان کے خلاف تحقیقات کا سلسلہ جاری ہے۔ ان تحقیقات میں بشیر احمد پیر عرف امتیاز عالم کے خلاف بعض کیسز میں تحقیقات مکمل ہوچکی تھیں۔
حریت رہنما عبدالحمید لون نے ایک بیان میں امتیاز عالم کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کیا۔
عبدالحمید لون نے دعویٰ کیا کہ امتیاز عالم کو تحریک طالبان پاکستان سے خطرہ تھا اور اس بارے میں پاکستان کے سیکیورٹی اداروں نے حریت رہنما کو آگاہ بھی کیا تھا۔
انہوں نے الزام عائد کیا کہ اس قتل میں بھارتی خفیہ ادارہ را بھی ملوث ہے اور اس وقت پاکستان میں مقیم دیگر کشمیریوں کو بھی خطرات موجود ہیں۔
واضح رہے کہ اس سے قبل حزب المجاہدین گروپ کے ایک سینئر کمانڈر ظہور مستری کو بھی گزشتہ سال 7 مارچ کو کراچی میں نامعلوم افراد نے گولی مارکر ہلاک کردیا تھا۔
وہ 25 دسمبر 1999 کو کھٹمنڈو سے نئی دہلی جانے والے بھارتی طیارے کو ہائی جیک کرنے میں ملوث تھا۔