برلن (ڈیلی اردو/ڈی پی اے) جرمن وزارت خارجہ نے یہ اقدام ایک ایرانی نژاد جرمن شہری کو تہران میں موت کی سزا سنائے جانے کے ردعمل میں کیا۔ جرمن وزیر خارجہ بیئربوک نےجمشید شارمھد کو سنائی گئی سزا کی منسوخی کا مطالبہ بھی کیا ہے۔
جرمنی نے بدھ کے روز دو ایرانی سفارت کاروں کو ’ناپسندیدہ شخصیات‘ قرار دے کر ملک بدر کر دیا۔ یہ اقدام تہران کی ایک عدالت کے ایرانی نژاد جرمن شہری جمشید شارمھد کو موت کی سزا سنانے کے رد عمل میں کیا گیا ہے۔
جرمن وزیر خارجہ انالینا بیئربوک نے ایرانی سفارت کاروں کی بے دخلی کی تصدیق کرتے ہوئے ایک بیان میں کہا کہ جرمنی اس ’’بڑے پیمانے پر ایک جرمن شہری کے انسانی حقوق کی پامالی کو قبول نہیں کر سکتا۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ’’ہم ایران سے جمشید شارمھد کی سزائے موت کی منسوخی اور انہیں منصفانہ اور آئین کے مطابق اپیل کے عمل کی اجازت دینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔‘‘
انالینا بیئربوک نے برلن میں واقع ایرانی سفارت خانے کے ناظم الامور کو وضاحت کے لیے طلب بھی کر لیا۔
جمشید شارمھد کون ہیں؟
منگل کے روز تہران کی ایک انقلابی عدالت نے 67 سالہ جمشید شارمھد کو موت کی سزا سنائی تھی۔ ایران میں عموماﹰ سزائے موت کے مجرمان کو پھانسی دی جاتی ہے۔
ایرانی عدلیہ کے نیوز پورٹل ’میزان‘ کی ایک رپورٹ کے مطابق عدالت نے اپنے فیصلے میں جمشید شارمھد کو ایک دہشت گردانہ حملے کا ذمے دار اور بیرونی انٹیلیجنس اداروں سے تعاون کے لیے مورد الزام ٹھہرایا تھا۔
شارمھد کے خاندان اور انسانی حقوق کی تنظیموں نے ان پر لگائے گئے الزامات کی تردید کی ہے۔ جمشید شارمھد کو سنائی گئی سزائے موت کے فیصلے کے خلاف ایرانی سپریم کورٹ میں اپیل بھی کی جا سکتی ہے۔
شارمھد کو ایرانی انٹیلیجنس نے 2020ء میں دبئی سے گرفتار کرنے کے بعد ایران پہنچا دیا تھا۔ وہ تب سے تہران کی ایک جیل میں قید ہیں۔ اس سے قبل جمشید شارمھد امریکہ میں مقیم تھے۔ وہاں وہ اسلامی جمہوریہ ایران کی حکومت کے مخالفین کے گروپ ’تھنڈر‘ سے منسلک رہے تھے۔ یہ گروہ ان جلاوطن ایرانیوں پر مشتمل ہے، جو ایران میں اسلامی جمہوریہ کے خاتمے اور وہاں بادشاہت کی واپسی کے لیے کوشاں ہیں۔
ایرانی عدلیہ کے مطابق اس تنظیم نے 2008ء میں شیراز شہر کی ایک مسجد پر دہشت گردانہ حملہ کیا تھا، جس کے نتیجے میں متعدد افراد ہلاک ہو گئے تھے۔ اس حملے کے سلسلے میں تین افراد کو پہلے ہی پھانسی دی جا چکی ہے۔