واشنگٹن (ڈیلی اردو/وی او اے) بائیڈن انتطامیہ نے منگل کے روز ایک منصوبہ پیش کیا ہے جس کے تحت حکومت کو، امریکہ میں پناہ کے متلاشی تارکینِ وطن کی تعداد کم کرنے اور انہیں فوری طور پر وطن واپس بھیجنے کا اختیار حاصل ہو جائے گا۔ یہ منصوبہ جو امریکہ۔ میکسیکو سرحد پر تارکینِ وطن کی تعداد کم کرنے کی انتظامیہ کی کوششوں کا حصہ ہے، مؤثر ہونے سے پہلے ہی تارکین وطن کے حامیوں کی نکتہ چینی کا شکار ہو سکتا ہے۔
اس منصوبے کے تحت ایسے تارکینِ وطن جو امریکہ میں داخل ہونے کے لیے موجود راستے اختیار نہیں کرتے یا کسی اور ملک میں جس سے وہ گذر کر آرہے ہوتے ہیں، انسانی ہمدردی کی بنیاد پر پناہ حاصل کرنے میں ناکام رہتے ہیں اور امریکہ پہنچنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں، تو استثنیٰ کے بغیر انہیں پناہ کے لیے مستحق خیال نہیں کیا جائے گا۔
ایسے لوگ جو استثنیٰ کے حقدار نہیں ہیں یا یہ ثابت کرنے میں ناکام رہتے ہیں کہ انہوں نے کسی اور ملک میں پناہ حاصل کرنے کی کوشش کی تھی، انہیں کسی امیگریشن جج کے سامنے پیش ہونے کا موقع دیے بغیر فوری طور پر ان کے ملک واپس بھیج دیا جائے گا۔
میڈیا کے نمائندوں سے فون پر بات کرتے ہوئے بائیڈن انتظامیہ کے عہدیداروں کا کہنا تھا کہ اس منصوبے کے تحت اب بھی تارکینِ وطن کو پناہ کی درخواست دینے کے لیے قابلِ رسائی اور آسان راستے حاصل ہیں۔
اس منصوبے میں دی گئی شقوں کا مقصدان سمگلروں کا بھی راستہ روکنا ہے جو خطرے میں گھرے لوگوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔
ڈیپارٹمنٹ آف ہوم لینڈ سیکیورٹی کے عہدیداروں کا کہنا ہے کہ لوگوں کو ان مجوزہ ضابطوں پر جن کا آغاز مئی میں ہوگا، رائے دینے کے لیے 30 دن دیے جا رہے ہیں۔
اس منصوبے کے ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ سابق امریکی صدر ٹرمپ کی انتظامیہ کی 2019 کی پناہ حاصل کرنے کے سلسلے میں عائد پابدیوں کی تجدید ہے جن پر وفاقی عدالتوں نے روک لگا دی تھی۔
کرش او مارا وگناراجہ ’لوتھرن امیگریشن اینڈ ریفیوجی سروس‘ نامی کمپنی کے سی ای او اور صدر ہیں۔ انہوں نے ایک بیان میں کہا ہے کہ سفر پر یہ پابندی امریکہ میں انسانی ہمدردی کی بنیاد پر تحفظ کی عشروں پرانی روایت کی نفی کرتی ہے جس کی ضمانت امریکی قانون اور بین الاقوامی معاہدوں میں دی گئی ہے۔ اور یہ صدر بائیڈن کے اسائلم کو دوبارہ بحال کرنے کےانتخابی وعدوں کی بھی خلاف ورزی ہے۔‘
نامہ نگاروں سے بات کرتے ہوئے بائیڈن انتظامیہ کے عہدیداروں نے اس بات کی سختی سے تردید کی کہ یہ منصوبہ اسائلم یا سفر پر کوئی پابندی ہے یا یہ کہ یہ سابق انتظامیہ کے اقدامات کا تسلسل ہے۔
امریکی قانون کے تحت اب بھی ایسے افراد کو امریکی سرزمین پر محفوظ پناہ حاصل ہو سکتی ہے جنہیں اپنے ملک میں نسل، مذہب، قومیت، سیاسی نظریے یا کسی خاص گروپ میں رکنیت حاصل کرنے کے باعث جبرو ستم کا سامنا ہو خواہ وہ امریکہ میں اجازت کے بغیر داخل ہوئے ہوں۔
امریکہ میں ہوم لینڈ سیکیورٹی کے وزیر آلی ہانڈرو میورکیس نے پریس کے لیے ایک بیان میں کہا ہے،’ ہم تارکینِ وطن کی قوم ہیں مگر ہم قانون کی پابند ی کرتے ہیں۔”
انہوں نے کہا، ’ہم تارکینِ وطن کے لیے امریکہ میں داخلے کے قانونی اور منظم راستے مہیا کرنے کے طریقے کو مضبوط بنا رہے ہیں۔ اور ساتھ ہی ان لوگوں کے لیے نئے ضابطوں کو متعارف کر رہے ہیں جو امریکہ اور خطے میں اس کے شراکت دروں کے مہیا کردہ طریقہ کار کو استعمال کرنے میں ناکام رہتے ہیں۔‘
اس بات کا امکان ہے کہ اگر اس منصوبے پر عملدرآمد ہوا تو اسے امیگریشن کی حمایت کرنے والوں کی طرف سے قانونی چیلنجز کا سامنا ہوگا۔