لندن (ڈیلی اردو/بی بی سی) نام نہاد شدت پسند تنظیم دولتِ اسلامیہ میں شامل ہونے کے لیے شام جانے والی نوجوان خاتون شمیمہ بیگم کی حکومت کی جانب سے اپنی برطانوی شہریت کی منسوخی کے خلاف اپیل مسترد کر دی گئی ہے جس کے بعد انھیں ملک واپس آنے کی اجازت نہیں دی جائے گی۔
اس سے قبل، عدالت نے اپنے متفقہ فیصلے میں کہا تھا کہ ان کی ملک میں واپس آنے کی درخواست مسترد ہونے سے ان کے حقوق پامال نہیں ہوئے۔
خیال رہے کہ برطانوی وزیرِ داخلہ نے شمیمہ بیگم کو برطانوی شہریت سے محروم کر دیا تھا اور وہ اسی فیصلے کو قانونی طور پر چیلنج کرنے کے لیے برطانیہ واپس آنا چاہتی ہیں۔
شمیمہ بیگم کون ہیں؟
21 سالہ شمیمہ بیگم اس وقت شمالی شام میں ایک کیمپ میں رہ رہی ہیں جو مسلح افراد کے پہرے میں ہے۔
فروری 2015 میں شمیمہ بیگم 15 برس کی تھیں جب وہ مشرقی لندن کی دیگر دو لڑکیوں کے ساتھ دولتِ اسلامیہ میں شامل ہونے شام چلی گئی تھیں۔
سنہ 2019 میں اس وقت کے وزیرِ داخلہ ساجد جاوید نے قومی سلامتی کی وجوہات کی بنا پر ان کی برطانوی شہریت منسوخ کر دی تھی۔
جولائی 2020 میں عدالت نے فیصلہ دیا تھا کہ اس معاملے میں منصفانہ پیش رفت کا یہی راستہ ہے کہ شمیمہ بیگم کو واپس آنے دیا جائے کیونکہ وہ شمالی شام کے ایک کیمپ میں بیٹھ کر اس فیصلے کے خلاف مؤثر طریقے سے اپیل نہیں کر سکتیں۔
تاہم وزارتِ داخلہ نے اپیلٹ کورٹ کے اس فیصلے کے خلاف فوراً ہی سپریم کورٹ میں اپیل دائر کر دی جس میں کہا گیا کہ شمیمہ بیگم کے برطانیہ واپس آنے سے ‘قومی سلامتی کے مسائل پیدا ہو سکتے ہیں۔’
16 فروری 2021 کو سپریم کورٹ کے جج لارڈ ریڈ نے اپنے فیصلے میں کہا کہ حکومت کے پاس شمیمہ بیگم کو برطانیہ آنے سے روکنے کا اختیار ہے۔
شمیمہ بیگم ترکی کے راستے رقہ میں دولت اسلامیہ کے ہیڈکوارٹر پہنچی تھیں اور وہاں انھوں نے ایک ڈچ شخص سے شادی کر لی تھی۔
شمیمہ بیگم کی عمر اب 21 برس ہے اور وہ تین برس تک دولت اسلامیہ کے زیر کنٹرول علاقے میں رہیں۔
فروری 2019 میں معلوم ہوا تھا کہ وہ ایک شامی پناہ گزین کیمپ میں ہیں اور اس وقت وہ حاملہ تھیں۔
اس بچے کی بعد میں نمونیہ سے موت ہو گئی تھی اور اس موقعے پر شمیمہ بیگم نے بتایا تھا کہ اس سے پہلے بھی ان کے دو بچوں کی موت ہو چکی ہے۔
شمیمہ بیگم کے بارے میں سنہ 2019 میں جب یہ معلوم ہوا کہ وہ شامی مہاجرین کے ایک کیمپ میں موجود ہیں تو برطانیہ کے ہوم آفس یا وزارتِ داخلہ نے سکیورٹی بنیادوں پر ان کی شہریت منسوخ کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔
آپ عدالت میں اس قسم کے فیصلے کو چیلنج کر سکتے ہیں اور شمیمہ بیگم نے بھی ایسا ہی کیا اور عدالت نے ان کے حق میں فیصلہ سناتے ہوئے کہا تھا کہ شمیمہ بیگم کو اپنا کیس لڑنے کے لیے برطانیہ آنے کی اجازت دی جانی چاہیے۔
تاہم برطانوی ہوم آفس نے دلیل پیش کی تھی کہ ان کو واپسی کی اجازت دینے سے ’قومی سلامتی کو سنگین خطرہ ہو سکتا ہے۔‘
ان کے ساتھ سفر کرنے والے ایک دوسری لڑکی خدیجہ سلطانہ کی ایک فضائی حملے میں موت ہوگئی تھی جبکہ تیسری لڑکی کے بارے میں آج تک کچھ معلوم نہیں ہو سکا ہے۔
ان کی شہریت کیسے اور کب منسوخ کی جا سکتی ہے؟
برطانیہ میں ان وجوہات کی بنایاد پر وزیر داخلہ کو کسی کی برطانوی شہریت منسوخ کرنے کا حق ہے:
* ایسا ’مفاد عامہ‘ میں کیا جائے اور اس سے وہ شخص بے ریاست نے ہو
* اس شخص نے دھوکے سے شہریت حاصل کی ہو
ان کے اقدامات سے برطانیہ کے مفادات کو نقصان پہنچتا ہو لیکن وہ کسی دوسرے ملک کی شہریت حاصل کرنے کے قابل ہوں
* شمیمہ بیگم کی شہریت مفاد عامہ کی وجہ سے منسوخ کی گئی تھی۔
بین الاقوامی قانون کے تحت برطانیہ اس بات کا ذمہ دار ہے کہ کوئی شخص بے ریاست نہ ہو۔ لیکن فروری 2020 میں ایک عدالت نے فیصلہ سنایا تھا کہ شمیمہ بیگم کی شہریت کی منسوخی اس لیے قانونی ہے کیوں کہ وہ ’نسلی طور پر بنگلہ دیش کی شہری ہیں‘ کیوں کہ وہ ایسی ماں کے ہاں پیدا ہوئیں جن کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ وہ بنگلہ دیشی ہیں۔
تاہم بنگلہ دیش کی وزارتِ خارجہ نے انہیں بنگلہ دیشی شہری ماننے سے انکار کرتے ہوئے کہا ہے کہ ان کو ملک میں داخلے کی اجازت دینے کا ‘سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔’
بہت سے کیسز میں شہریت تب منسوخ کی جاتی ہے جب معاملہ قومی سلامتی جیسا کہ شدست پسندی یا سنگین نوعیت کے منظم جرائم کا ہو۔
برطانوی شہریوں کے پاسپورٹ بھی ضبط کیے جا سکتے ہیں۔
شہریت کیا ہوتی ہے؟
شہریت دراصل کسی بھی شہری کا قانونی درجہ ہوتا ہے۔ اگر کوئی ایک برطانوی شہری ہے جس کے پاس اس ملک میں رہنے کا قانونی حق دیتا ہے اور اس کے ساتھ اسے وہاں فلاح وبہبود کی سروسز، تعلیم اور صحت جیسی سہولیات استعمال کرنے کا حق مل جاتا ہے۔
جو افراد شہری نہیں بھی ہوتے انھیں برطانیہ مستقل بنیادوں پر ان میں سے اکثر سہولیات مل جاتی ہیں۔