کوئٹہ (ڈیلی اردو/ڈوئچے ویلے) اس احتجاجی تحریک میں پہلی بار بلوچ قوم پرست سیاسی جماعتیں بھی براہ راست حصہ لے رہی ہیں۔ مظاہرین نے اقوام متحدہ سے صوبے میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا نوٹس لینے کا مطالبہ کیا ہے۔
بلوچستان کے مختلف حصوں میں بلوچ خواتین کی مبینہ جبری گمشدگیوں اور گرفتاریوں کے خلاف احتجاج زور پکڑ گیا۔ ریاستی پالیسیوں کے خلاف ہونے والے احتجاجی مظاہروں میں اقوام متحدہ سے صوبے میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کا سختی سے نوٹس لینے کا مطالبہ کیا گیا ہے۔
اس احتجاجی تحریک میں اس بار بلوچ قوم پرست سیاسی جماعتیں بھی براہ راست حصہ لے رہی ہیں۔کوئٹہ میں عدالت روڈ پر آج بروز ہفتہ بلوچ قوم پرست جماعت، بلوچستان نیشنل پارٹی (مینگل) نے بھی لاپتہ افراد کے بازیابی کے لیے احتجاجی کیمپت کا انعقاد کیا۔ اس کیمپ میں لاپتہ بلوچ خواتین اور دیگر سیاسی کارکنوں کے لواحقین نے کثیر تعداد میں شرکت کی۔
مظاہرین سے خطاب میں مقررین نے صوبے میں بلوچ مخالف ریاستی پالیسیوں کے تسلسل کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کا کہنا تھا کہ بے گناہ بلو چ سیاسی کارکنو ں کو صوبے میں روزانہ کی بنیاد پر لاپتہ کیا جا رہا ہے جس کی وجہ سے حکومت پر بلوچ عوام کا اعتماد اٹھ گیا ہے۔
فیصلہ سازی سے دور قیادت
بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ او ر نیشنل پارٹی کے سربراہ ڈاکٹر عبدالمالک بلوچ کہتے ہیں کہ نظام انصاف میں پائی جانے والی خامیوں کو دور کیے بغیر موجودہ حالات بہتر نہیں ہوسکتے۔ ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا،”ہم ہمیشہ سے یہ کہتے آرہے ہیں کہ اب وقت بدل گیا ہے ۔صورتحال کو بہتر بنانے کے لیے زمینی حقائق پر توجہ دینا بہت ضروری ہے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا، ”بلوچستان میں پائی جانے والی محرومیوں کو دور کرنے کے لیے ایسی پالیسی کی ضرورت ہے، جس سے ریاست پر عوامی اعتماد میں اضافہ ہو ۔ لاپتہ افراد سے متعلق اٹھائے گئےاقدامات کا از سرنو جائزہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ عوامی خدشات دور ہوسکیں۔ آئین میں شہریوں کے حقوق ہر حوالے سے واضح کیے گئے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کی انصاف کی بلا تفریق فراہمی یقینی بنانے کے لیے اقدمات کیے جائیں۔‘‘
ڈاکٹر مالک بلوچ کا کہنا تھا کہ بطور وزیراعلیٰ انہیں بھی ایسے کئی امور سے مرکزی سطح پر دور رکھا گیا جو کہ بلوچستان کے مستقبل کے حوالے سے بہت اہم تھے۔ان کے بقول، ”بلوچستان کے معاملات ملک کے دیگر حصوں کے مقابلے میں یکسر مختلف ہیں۔ یہاں گزشتہ تین دہائیوں سے لوگ مسلسل اپنے حقوق کے لیے آواز بلند کرتے آ رہے ہیں ۔ ہمارے دور حکومت میں غیرملکی سرمایہ کاری کے معاملات میں بھی ہمیں نظرانداز کیا گیا۔ اگر حقوق کے لیے کوئی فرد آواز اٹھاتا ہے تو اس عمل کو کوئی قانون جرم نہیں قرار دے سکتا۔”
چادر اور چاردیواری کی پامالی کے الزامات
لاپتہ بلوچ سیاسی کارکنوں کی بازیابی کے لیے شروع ہونے والی نئی احتجاجی تحریک میں انسانی حقوق کے لیے کام کرنے والی تنظیموں کے ارکان بھی شریک ہورہے ہیں ۔بلوچستان کے شورش زدہ علاقے تربت سے تعلق رکھنے والی انسانی حقوق کی ایک کارکن مہوش بلوچ کہتی ہیں کہ گھریلو خواتین کی گرفتاریوں کے بڑھتے ہوئے واقعات سے لوگ خود کو غیر محفوظ تصور کرنے لگے ہیں۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ” حکومت کہتی ہےکہ بلوچستان کے عوام کی محرومیاں دور کرنے پر توجہ دی جا رہی ہے۔ کیا توجہ یہ ہے کہ لوگوں کو دیوار کے ساتھ لگایا جائے؟ اگر انصاف نہیں ہوگا تو ترقی یاخوشحالی کس طرح آسکتی ہے ۔ بلوچستان کے نوجوان بغاوت پر اس لیے اتر رہے ہیں کیونکہ انہیں ریاستی پالیسیوں پر اعتماد نہیں۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ اقوام متحدہ بلوچ عوام کو انصاف کی فراہمی کے لیے کردار ادا کرے۔‘‘
مہوش بلوچ نے دعویٰ کیا کہ بلوچستان کے مختلف حصوں سے درجنوں بلوچ خواتین کو لاپتہ کیا گیا ہے مگر ان کی بازیابی کے لیے اب تک کوئی سنجیدہ قدم نہیں اٹھایا گیا۔ان کے بقول،”بلوچستان کے حالات اس قدر تشویشاک ہوتے جارہے ہیں کہ ریاستی اداروں کی پالیسوں اور اقدامات نے عوام کو عدم تحفظ کا شکار بنادیا ہے۔ عملی طور پر یہاں ایسا کوئی قدم اٹھتا ہوا دکھائی نہیں دیتا جس سے صوبے کے مایوسی سے دوچار علاقوں کے عوام کا اعتماد بحال ہو۔ شورش زدہ علاقوں میں گرفتاریوں کے بجائے ریاست پر عوامی اعتماد کی بحالی کی بہت ضرورت ہے۔‘‘
’ماہل بلوچ خودکش حملہ آور نہیں‘
کوئٹہ کے ایک نواحی علاقے سے چند یوم قبل نیہال بلوچ کی ایک رشتہ دار ماہل بلوچ کو بھی دہشت گردی کے الزام کے تحت گرفتار کیا گیا تھا۔ نیہال کہتے ہیں کہ بلوچ خواتین کوگھروں سے اٹھا کر ان پر بلاوجہ دہشت گردی کے الزامات عائد کیے جا رہے ہیں۔ ڈی ڈبلیوسے گفتگو کرتے ہوئے انہوں نے کہا، ” پاکستان کے بعض علاقوں میں بلوچوں کے ساتھ ملک کے دوسرے درجے کے شہریوں کی طرح رویہ اپنایا گیا ہے۔ پہلے یہاں مردوں کو لاپتہ کیا جاتا تھا اور اب خواتین کو بھی لاپتہ کرنے کا سلسلہ شروع کیا گیا ہے۔ہماری قریبی رشتہ دار ماہل بلوچ کو بھی سکیورٹی اہلکاروں نے بے بنیادا لزامات کے تحت گرفتار کیا ہے۔ لاپتہ افراد کے لواحقین انصاف کے لیے در در کی ٹھوکریں کھانے پر مجبور ہیں۔”
نیہال نے دعویٰ کیا کہ ماہل بلوچ کو ان کے گھر سے گرفتار کر نے کے بعد دہشت گردی کے مقدمے میں پھنسایا گیا۔ واضح رہے کہ پاکستان کی موجودہ حکومت نے بلوچستان نیشنل پارٹی کے سربراہ اختر مینگل کی سربراہی میں لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے ایک کمیشن بھی قائم کیا ہے۔ اس کمیشن کے ارکان نے گزشتہ سال سے لے کر اب تک لاپتہ افرا د کے لواحقین سے کئی بار ملاقاتیں کی ہیں۔