پاکستان میں سابق ’کشمیری جہادی کمانڈروں‘ کی پراسرار ہلاکتوں کے پیچھے کس کا ہاتھ ہے؟

سویڈن (ڈیلی اردو/بی بی سی) تاریخ: 26 فروری، 2023۔ مقام: کراچی، گلستان جوہر۔ واردات، 55 سالہ خالد رضا کا قتل۔ ملزم: نامعلوم موٹر سائیکل سوار۔

تاریخ: 20 فروری، 2023۔ مقام: راولپنڈی۔ واردات، 60 سالہ بشیر احمد کا قتل۔ ملزم: نامعلوم موٹر سائیکل سوار۔

تاریخ: مارچ، 2022۔ مقام: کراچی، اختر کالونی۔ واردات، مستری زاہد ابراہیم کا قتل۔ ملزم: نامعلوم موٹر سائیکل سوار۔

قتل کی ان تین وارداتوں میں مقام مختلف ہیں لیکن طریقہ واردات ایک جیسا ہے۔ نامعلوم افراد نے ٹارگٹ کلنگ میں ہدف کو نشانہ بنایا۔

پاکستان میں ایسی وارداتیں نئی نہیں لیکن اگر بغور مقتولین کے ماضی کا جائزہ لیا جائے تو ایک قدر مشترکہ کا سراغ لگانا مشکل نہیں۔

خالد رضا، بشیر احمد اور مستری زاہد۔۔۔ تینوں کا تعلق ایسی ’جہادی تنظیموں‘ سے رہ چکا ہے جو انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں متحرک رہی ہیں۔

اب تک ان کے قاتل نامعلوم ہیں لیکن ان کی تنظیمیں اور ان کے قریبی رفقا اشارے کنایوں میں انڈیا پر الزام لگا رہے ہیں۔

کیا انڈیا پاکستان میں ’جہادی تنظیموں‘ کے اراکین کے خلاف خفیہ مہم شروع کر چکا ہے؟

کراچی کے علاقہ گلستان جوہر میں نامعلوم حملہ آوروں نے ایک 55 سالہ سابق کشمیری ’جہادی‘ کمانڈر سید خالد رضا کو 26 فروری بروز اتوار گھر کی دہلیز پر قاتلانہ حملہ میں ہلاک کیا۔

سید خالد رضا انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں انڈین افواج کے خلاف 90 کی دہائی میں البدر مجاہدین نامی تنظیم کے سرکردہ رہنما رہے تھے مگر نائن الیون کے بعد بیشتر کشمیری ’جہادی تنظیموں‘ پر ریاستی پابندیوں کے بعد وہ عسکریت پسندی کی زندگی سے کنارہ کش ہو کر تعلیم کے شعبہ سے وابستہ ہوئے۔

سید خالد رضا کے قتل کی ذمہ داری ریاست مخالف قوم پرست اور علیحدگی پسند مسلح تنظیم سندھ دیش آرمی نے قبول کی مگر یہ اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ نہیں۔

دراصل سید خالد رضا کا قتل ماضی میں انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے ’جہادی کمانڈروں‘ کی پراسرار ہلاکتوں کے سلسلہ کی ایک کڑی ہے جو گذشتہ کچھ عرصہ سے جاری ہے۔

گزشتہ ایک ہفتے میں یہ دوسرا اور گذشتہ ایک سال میں ایسا پانچواں واقعہ ہے جس میں اہم کشمیری ’جہادی تنظیموں‘ کے موجودہ اور سابق سرکردہ کمانڈر نامعلوم حملہ آوروں کے پراسرار ہدفی حملوں میں نشانہ بنے جن میں سید خالد رضا سمیت تین اہم کمانڈر مارے جا چکے ہیں۔

سید خالد رضا کون تھے؟

کراچی جماعت اسلامی کے سربراہ انجینئیر نعیم الرحمان نے ایک سوشل میڈیا پیغام میں سید خالد رضا کی ہلاکت پر افسوس کا اظہار کرتے ہوئے بتایا کہ وہ دونوں جماعت اسلامی کے طلبا ونگ اسلامی جمعیت طلبہ میں ساتھی رہے تھے۔

کراچی کے سینئیر صحافی فیض اللہ خان کے مطابق سید خالد رضا کا تعلق کراچی میں آباد بہاری برادری سے تھا جو 90 دہائی کے اوائل میں افغانستان میں البدر تنظیم کے ٹریننگ کیمپوں سے تربیت حاصل کرنے کے بعد انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں انڈین افواج کے خلاف لڑائی میں شریک رہے مگر 1993 میں پاکستان واپسی کے بعد ان کو پشاور میں اسی تنظیم کا مسئول مقرر کیا گیا تھا۔

البدر مجاہدین جماعت اسلامی کی ایک ذیلی عسکری ونگ رہ چکی ہے اور اسی کی دہائی کے اوائل سے افغانستان اور پھر انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں میں سرگرم رہی تاہم بعض اندرونی اختلافات کی وجہ سے البدر مجاہدین نوے کی دہائی کے اواخر میں جماعت اسلامی سے الگ ہوئی۔

اس وقت جماعت اسلامی سید صلاح الدین کے زیر قیادت حزب المجاہدین کی حمایت کر رہی تھی اور جماعت کی خواہش تھی کہ البدر بھی حزب المجاہدین میں ضم ہو جائے۔

فیض اللہ خان کے مطابق 90 کی دہائی کے اواخر میں جب سید خالد رضا کو کراچی ڈویژن کے لیے البدر کا سربراہ مقرر کیا گیا تو وہ پورے صوبہ میں تنظیم کے سب سے بااثر رہنما تھے۔

نائن الیون کے بعد جب سابق فوجی سربراہ پرویز مشرف کی جانب سے پاکستان میں ’جہادی تنظیموں‘ پر پابندی لگی تو ان تنظیموں کے سینکڑوں افراد کو گرفتار کیا گیا۔

ان میں سید خالد رضا بھی شامل تھے جنھوں نے چند برس قید کے بعد بتدریج عسکریت پسندی کی زندگی سے علیحدگی اختیار کی اور تعلیم کے شعبہ سے وابسطہ ہوئے۔

بشیر احمد کا قتل

سید خالد رضا سے قبل گذشتہ پیر 20 فروری کو پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد سے متصل راولپنڈی شہر میں کشمیری کمانڈر بشیر احمد پیر عرف امتیاز عالم کو نماز مغرب کے بعد گھر جاتے ہوئے نامعلوم مسلح موٹر سائیکل سواروں نے پستول سے نشانہ بنا کر ہلاک کیا اور فرار ہو گئے۔

صحافی جلال الدین مغل کی ایک رپورٹ کے مطابق 60 سالہ بشیر احمد کا تعلق انڈیا کے زیر انتظام کشمیر کے ضلع سرینگر کے علاقہ کپواڑہ سے تھا اور وہ 80 کی دہائی کے اواخر سے سب سے بڑی کشمیری ’جہادی‘ تنظیم حزب المجاہدین سے وابستہ تھے۔

وہ 90 کی دہائی کے اوائل میں خاندان سمیت پاکستان منتقل ہوئے اور حزب المجاہدین کی سپریم کونسل کے رکن ہونے کے علاوہ تنظیم کے بانی سربراہ کے بعد تنظیم کے بااثر کمانڈر سمجھے جاتے تھے۔

پراسرار واقعات کا سلسلہ اور حکومت پاکستان کا انڈیا پر الزام

پچھلے سال مارچ میں کراچی کے علاقہ اختر کالونی میں ’جہادی تنظیم‘ جیش محمد کے رکن مستری زاھد ابراہیم کا قتل ہوا تھا۔ دو مسلح موٹر سائیکل سواروں نے ان کو فرنیچر سٹور میں پستول سے ہدفی کارروائی میں نشانہ بنا کر قتل کیا۔

مستری زاھد ابراہیم دسمبر 1999 میں نیپال سے ایک انڈین مسافر ہوائی جہاز کی ہائی جیکنگ میں ملوث تھے جو کابل لے جایا گیا تھا۔

ہائی جیکرز نے انڈین جیل میں برسوں سے قید جیش محمد کے بانی سربراہ مولانا مسعود اظہر کو دو دیگر اہم کمانڈروں مشتاق زرگر اور عمر سعید شیخ سمیت رہا کروا لیا تھا۔

مستری زاہد کا قتل کیسے ہوا اور کس نے کیا، اس بارے میں کچھ کہا نہیں جا سکتا تاہم اس سے قبل ایک اور اہم ’جہادی تنظیم‘ کے کمانڈر کو نشانہ بنانے کی کوشش ہوئی تو پاکستان نے انڈیا پر الزام لگایا تھا۔

جون 2021 میں لاہور کے علاقہ جوہر ٹاؤن میں ایک کار بم دھماکہ ہوا تھا۔

اس دھماکے میں ’جہادی تنظیم‘ لشکر طیبہ یا جماعت الدعوة کے سربراہ حافظ سعید کے گھر کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی جس میں حافظ سعید اور ان کے اہلخانہ محفوظ رہے مگر چار افراد ہلاک ہو گئے تھے۔

دسمبر 2021 میں پاکستانی کی وزیر مملکت برائے خارجہ امور حنا ربانی کھر نے ایک پریس کانفرنس میں دعویٰ کیا کہ تحقیقاتی اداروں کے رپورٹ کے مطابق اس حملے میں انڈیا ملوث تھا۔

حنا ربانی کھر نے اس واقعہ کے ردعمل میں اقوام متحدہ سے انڈیا کے خلاف سخت کارروائی کی اپیل کی۔

لاہور سے سینئیر صحافی ماجد نظامی کے مطابق پاکستان میں کشمیری ’جہادی تنظیموں‘ کے خلاف انڈیا کی مبینہ کارروائیوں کا منظر عام پر آنے والا پہلا واقعہ سنہ 2013 میں حافظ سعید کے قریبی ساتھی خالد بشیر کا لاہور سے اغوا اور پرتشدد موت تھی جن کی لاش دو روز بعد لاہور سے ملحقہ ضلع شیخوپورہ سے برآمد ہوئی تھی۔

حافظ سعید کی سکیورٹی معلومات حاصل کرنے کے لیے ملزمان کے بدترین تشدد میں حافظ خالد بشیر کی ہڈیاں فریکچر ہو گئی تھیں اور پھر ان کو آنکھوں میں پستول سے گولیاں مار قتل کیا گیا تھا۔

ماجد نظامی کے مطابق اگرچہ خالد بشیر کے قتل کی ذمہ داری کسی نے قبول نہیں کی مگر سکیورٹی اداروں کی تحقیقات کے مطابق اس واقعے کے تانے بانے انڈین انٹیلجنس اداروں سے جڑتے تھے۔

ماجد نظامی کے مطابق اس واقعہ میں گرفتار دو ملزموں کو بعد میں سزائے موت ہوئی تھی جنھوں نے سکیورٹی اداروں کو بتایا تھا کہ ان کو اس کارروائی کا ٹاسک ایک خلیجی ملک سے انڈین انٹیلجنس ادارے را کے اہلکاروں نے دیا تھا۔

وہ واقعات جو منظر عام پر نہیں آئے

منظر عام پر آنے والے ان واقعات کے علاوہ چند دیگر ایسے حالیہ واقعات بھی ہیں جن میں ان ہی تنظیموں کے سرکردہ کمانڈروں کو نشانہ بنانے کی ناکام کوشش کی گئی مگر وہ واقعات میڈیا میں سامنے نہیں آئے۔

مثلا، ماجد نظامی کے مطابق گذشتہ برس پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں حزب المجاہدین کے بانی سربراہ سید صلاح الدین کی گاڑی کو بم دھماکہ سے اڑانے کی منصوبہ بندی کی گئی تھی جس کو ان کے محافظین نے ناکام بنا دیا تھا۔

اسی طرح صحافی فیض اللہ خان نے بتایا کہ تقریباً دو ہفتہ قبل کراچی کی اختر کالونی ہی میں جیش محمد کے زاھد ابراہیم مستری کے قریبی ساتھی اور انڈین طیارہ ہائی جیکنگ کیس کے ایک دوسرے کردار کو اس کے گھر میں تین حملہ آوروں نے نشانہ بنانے کی منصوبہ بندی کی تھی مگر ان حملہ آوروں کو سکیورٹی اداروں نے کال ٹریس کی وجہ سے گرفتار کر لیا تھا۔

ان پراسرار واقعات میں کون ملوث ہے؟

اگرچہ سید خالد رضا کے قتل کی ذمہ داری سندھو دیش تنظیم نے قبول کی ہے مگر اس بیان میں اس حملہ کی کوئی ٹھوس وجہ شامل نہیں جس سے یہ واضح ہو کہ واقعی یہی تنظیم اس حملہ کی اصل منصوبہ ساز ہے۔

اس تنظیم کے بیان کے مطابق سید خالد رضا کے قتل کو سندھ میں مذہبی انتہا پسندوں اور آباد کاروں کے خلاف کارروائیوں کا حصہ قرار دیا ہے۔

لیکن اس نظریہ کے تحت تو کراچی اور سندھ میں کروڑوں افراد اس تنظیم کے اہداف کے زمرے میں آتے ہیں تو پھر سید خالد رضا کا انتخاب ہی کیوں؟

دوسری طرف اس قتل کو مندرجہ بالا واقعات کے تناظر میں دیکھا جائے تو یہ پاکستان کی سرزمین پر انڈیا کا اپنے مسلح مخالفین کے خلاف اقدامی کارروائیوں کا آغاز معلوم ہوتا ہے جس کا مقصد انڈیا کے زیر انتظام کشمیر میں دوبارہ کسی مسلح تحریک کے سر اٹھانے کے امکانات کا راستہ روکنا ہے۔

اس کا ایک دلچسپ پس منظر انڈین میڈیا میں ان حملوں پر فوراً طور پر سامنے آنے والا وہ جشن ہے جسے انڈین اداروں کے اپنے دشمنوں کے خلاف کامیاب کارروائیوں کا سلسلہ قرار دیا ہے۔

بعض انڈین باشندوں نے تو ان حملوں کو اسرائیل کی خفیہ ادارہ موساد کی فلسطینی مسلح مزاحمت کار تنظیموں کی قیادت و ارکان کے خلاف کارروائیوں سے تشبیہ دی ہیں اگرچہ انڈیا کی طرف سے کسی سرکاری ردعمل کا اظہار نہیں کیا گیا۔

ماجد نظامی کے مطابق ہلاک ہونے والے افراد کے جنازوں میں شریک تنظیموں کے افراد نے بھی ان واقعات میں انڈیا کے ملوث ہونے کا اشارہ کرتے ہوئے بتایا کہ مقتولین سمیت ایسے دیگر افراد کو اپنی تنظیموں کی جانب سے نقل و حرکت محدود رکھنے اور سکیورٹی تدابیر بڑھانے کا مشورہ دیا گیا تھا۔

اپنا تبصرہ بھیجیں