کراچی (ویب ڈیسک) برطانوی انسانی حقوق کی تنظیم تھری ڈی کے ڈائریکٹر امریکی وکیل کلائیو اسٹافورڈ اسمتھ کا کہنا ہے کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی نے گوانتانامو میں مرد قیدیوں سے کہیں زیادہ تشدد برداشت کیا ہے۔
کراچی پریس کلب میں عافیہ موومنٹ کی چیئرپرسن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی اور جواد ربانی کے ہمراہ پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے امریکی وکیل کلائیو اسٹافورڈ اسمتھ نے کہا کہ گزشتہ جمعہ کو پاکستانی وقت کے مطابق دوپہر 12 بجے احمد ربانی اور ان کے بھائی عبدل اسلام آباد پہنچ گئے ہیں جنہیں کابل اور گوانتاناموبے کی تاریک جیل میں بغیر کسی مقدمے کے 20 سال تک تشدد اور حراست میں رکھنے کے بعد رہا کیا گیا۔
امریکی وکیل نے کہا کہ ربانی برادران کو بغیر کسی الزام کے 20 سال سے زیادہ حراست میں رکھا گیا. جس میں تاریک جیل میں 540 دن کی اذیتیں بھی شامل ہیں، بلاشبہ اس میں تاخیر ہوئی ہے. آئندہ عافیہ صدیقی اپنے وطن میں ہوں گی۔
کلائیو اسٹافورڈ اسمتھ نے حال ہی میں عافیہ سے ٹیکساس جیل میں ملاقات کی تھی، انہوں نے وہاں کی صورت حال بیان کی اور حکومت پاکستان سے مطالبہ کیا کہ وہ ان کے اور ڈاکٹر عافیہ کی رہائی کیلئے کام کرنے والے دیگر سپورٹرز کے ساتھ مل کر حل کے لیے کام کرے۔
انہوں نے کہا کہ گوانتاناموبے سیل کے بجائے پاکستان میں ربانی برادران کے ساتھ کافی پینا ایک مسحور کن لمحہ ہے تاہم اب ہمیں عافیہ کے معاملے کو دیکھنا چاہیے۔ عافیہ نے گوانتاناموبے میں کسی بھی مرد قیدی کی طرح ٹارچر برداشت کیا ہے اور اگر ہم اس کی رہائی کی کوشش نہیں کریں گے تو وہ ٹیکساس کی خوفناک جیل میں مر جائے گی۔
ڈاکٹر فوزیہ صدیقی نے کہا کہ میری بہن پاکستانی قوم کی بیٹی ہے۔ اُس تشدد کے بارے میں سوچنا بھی مشکل ہے جو میری چھوٹی بہن ہر روز سہتی ہے۔ ہمیں اسے وطن واپس لانا چاہیے۔
20 سال کے نوجوان جواد ربانی نے کہا کہ میں اپنے والد سے پہلی بار مل کر بہت خوش ہوا۔ اب میں انسانی حقوق کا وکیل بننا چاہتا ہوں تاکہ یہ یقینی بنایا جاسکے کہ ایسا دوسروں کے ساتھ نہ ہو۔
احمد ربانی کے بیٹے جواد ربانی نے (جس نے کبھی اپنے والد کو دیکھا تک نہیں تھا) بیس سال تک اپنے والد کے لاپتہ ہونے کے عذاب کی اذیت، حکومت پاکستان کی حتمی مداخلت کے بارے میں تفصیلات اور اسلام آباد ایئرپورٹ پر ان کی ملاقات کی خوشی کے بارے میں بھی بتایا۔