تہران (ڈیلی اردو/رائٹرز/اے ایف پی/ڈی پی اے) بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے سربراہ رافیل گروسی کا دورہ تہران ایک ایسے وقت ہو رہا ہے، جب سن 2015 کے جوہری معاہدے کی بحالی پر ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان بات چیت تعطل کا شکار ہے۔
بین الاقوامی جوہری توانائی ایجنسی کے سربراہ رافیل گروسی تین مارچ جمعے کے روز تہران پہنچے، جہاں وہ ایرانی حکام سے ایران کے متنازعہ جوہری پروگرام کے بارے بات چیت کر رہے ہیں۔
IAEA Director General @rafaelmgrossi to hold a press conference upon his return from #Iran and brief journalists about current developments.
???? Saturday, 4 March 2023
⏲️ Around 5.30 p.m. (CET, Vienna time)
???? Livestream: https://t.co/CVYna8Ryjb pic.twitter.com/gHVvxrLe4v— IAEA – International Atomic Energy Agency ⚛️ (@iaeaorg) March 3, 2023
ان کا یہ دورہ ایک ایسے وقت ہو رہا ہے، جب بین الاقوامی جوہری توانائی ادارہ ایران کی جوہری سرگرمیوں سے متعلق تہران سے مزید تعاون بڑھانے کی کوشش کر رہا ہے۔
تہران پہنچنے کے بعد رافیل گروسی نے ایران کی جوہری توانائی ادارے کے سربراہ محمد اسلامی سے ملاقات کی۔ تاہم دونوں میں گفتگو کیا ہوئی، اس کی تفصیلات فوری طور پر سامنے نہیں آ سکیں۔
#Iran president says expects @iaeaorg not to be influenced by world powers https://t.co/p5DqKZTEqH pic.twitter.com/krgsa0Tqeb
— IRNA News Agency (@IrnaEnglish) March 4, 2023
اپنے دو روزہ دورے کے دوران رافیل گروسی ایرانی صدر ابراہیم رئیسی اور بعض دیگر حکام سے بھی بات چیت کرنے والے ہیں۔
ایران کی سرکاری خبر رساں ایجنسی ارنا (آئی آر این اے) نے بغیر کوئی تفصیل بتائے اپنے بیان میں بس اتنا کہا کہ “ان ملاقاتوں کے ایجنڈے میں حفاظتی امور کے ساتھ ہی، ایران اور آئی اے ای اے کے درمیان تکنیکی اور قانونی سطح کے اختلافات بھی شامل ہیں۔”
ایٹمی مذاکرات کی صورتحال کیا ہے؟
حال ہی میں آئی اے ای اے کے معائنہ کاروں نے ایران کے فردو کے ایک جوہری پلانٹ میں، تقریباً 84 فیصد تک افزودہ یورینیم کے ذرات کی نشاندہی کی تھی۔ اس کی وجہ سے تہران اور مغرب کے درمیان کشیدگی میں مزید اضافہ ہو گیا ہے۔
جوہری ہتھیار بنانے کے لیے تقریباً 90 فیصد یورینیم کی افزودگی کی سطح درکار ہوتی ہے۔
تہران کا اصرار اس بات پر ہے کہ اس کا جوہری پروگرام سویلین مقاصد کے لیے ہے اور وہ اس سے جوہری ہتھیار بنانے کا کوئی ارادہ نہیں رکھتا ہے۔
ایران کی حکومت کا یہ بھی کہنا ہے کہ اس نے یورینیم کو 60 فیصد سے زیادہ تک افزودہ کرنے کی کوئی کوشش نہیں کی ہے۔ البتہ اس کا یہ کہنا ہے کہ ممکن ہے افزودگی کے عمل کے دوران “غیر ارادی طور پر اس کی سطح میں اتار چڑھاؤ ۔۔۔۔۔ واقع ہوا ہو۔”
ایران اور عالمی طاقتوں کے درمیان سن 2015 کے جوہری معاہدے کو بحال کرنے پر ہونے والی بات چیت گزشتہ کئی ماہ سے تعطل کا شکار ہے اور آئی اے ای اے کے سربراہ کا دورہ اس کشیدگی کے ماحول میں ہو رہا ہے۔ سن 2015 کا جوہری معاہدہ مشترکہ جامع منصوبہ عمل (جے سی پی او اے) کے نام سے بھی معروف ہے۔
سن 2018 میں امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے یکطرفہ طور پر اس معاہدے سے علیحدگی اختیار کر لی تھی اور ایران پر دوبارہ پابندیاں عائد کر دی تھیں۔ اس کے بعد تہران نے بھی معاہدے کے تحت اپنے وعدوں پر عمل درآمد معطل کر دیا۔
معاہدے کو بحال کرنے کے لیے پھر سے مذاکرات سن 2021 میں شروع ہوئے، لیکن گزشتہ سال سے ہی تعطل کا شکار ہیں۔
چند روز قبل ہی امریکی محکمہ دفاع کے ایک اعلیٰ عہدیدار نے کہا تھا کہ ایران تقریباً 12 دنوں میں ایک جوہری بم کے لیے ضروری انشقاقی مادہ (Fissile Material) تیار کر سکتا ہے، جو کہ سن 2015 کے ایران جوہری معاہدے کے نفاذ کے دوران ممکنہ اندازے کے مطابق ایک سال کی مدت سے کم ہے۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ ایران انشقاقی مادہ تیار کرنے کے قریب تر پہنچ گیا ہے۔ تاہم انہیں اس بات کا یقین نہیں ہے کہ اس نے جوہری بم بنانے کی ٹیکنالوجی میں مکمل مہارت حاصل کر لی ہے، یا نہیں۔