پشاور (ڈیلی اردو/ٹی این این) صوبہ خیبر پختونخوا کے صوبائی حکومت پشاور کے قصہ خوانی بازار کے نزد کوچہ رسالدار کی شیعہ جامع مسجد میں خودکش حملے کو ہوئے ایک سال بیت گیا تاہم حملے کا نشانہ بننے والوں کے لواحقین کے دلوں میں درد آج بھی زندہ ہے۔
اس روز امامیہ جامعہ مسجد کے سامنے گھر میں مقیم عرفانہ جلال ہمیشہ کی طرح نمازیوں کو دیکھتی رہیں کیونکہ اس مسجد میں بڑی تعداد ان نمازیوں کی تھی جو عرفانہ جلال کے ہاتھوں میں پیدا ہوئے اور آج جوان ہیں تاہم وہ نہیں جانتی تھی کہ اگلے پہر کیا ہونے والا ہے؟
یہ 4 مارچ 2022 کا دن تھا جب ایک حملہ آور شیعہ جامع مسجد کے داخلہ راستہ پر تعنیات پولیس اہلکار پر فائر کرکے برق رفتاری سے مسجد کے اندر داخل ہوا اور مرکزی صحن کے عین وسط میں پہنچ کر اس نے خود کو دھماکے سے اڑا دیا جس میں پولیس کے مطابق 63 افراد جان کی بازی ہار گئے جبکہ 196 زخمی ہوئے تھے۔
عرفانہ جلال کے مطابق وہ صرف ایک بم دھماکہ نہیں بلکہ نہ ختم ہونے والی تکلیف ہے جو آج بھی ان کے دل میں زندہ ہے کیونکہ جن بچوں کو انہوں نے اپنے ہاتھوں میں جوان کیا ان کے جنازے اٹھتے دیکھنا سب سے تکلیف دہ امر تھا۔ وہ کہتی ہے آج جوان لڑکیوں کو بیوہ ہوئے ایک سال بیت گیا لیکن باب کی شفقت سے محروم بچے آج بھی یہ نہیں جانتے کہ ان کے باپ کا قاتل کون ہے؟
امامیہ مسجد کوچہ رسالدار کے متاثرین آج بھی یہ گلہ کرتے ہیں حملہ میں ہلاک ہونے والے کی تعداد درست نہیں ہے ان کا دعویٰ ہے کہ حملے میں 71 افراد لقمہ اجل بنے اور 240 زخمی ہوئے ہیں۔
ٹی این این سے بات کرتے ہوئے رابطہ سیکرٹری امامیہ جرگہ مظفر اخونزادہ نے بتایا کہ اس حملے میں ان کے تین بیٹے ہلاک ہوئے جبکہ کوئی ایسا گھر نہیں بچا جہاں سے جنازہ نہ اٹھا ہو۔ ان کے بقول یہ ایک ایسا حملہ تھا جس میں سب سے زیادہ ہلاکتیں ہوئیں۔ انہوں نے بتایا 1985 سے لیکر اب تک پشاور میں اہل تشیع کو 2 ہزار سے زائد حملوں کا نشانہ بنایا گیا لیکن افسوس اس امر کا ہے کہ ایک بھی حملے کی تحقیقات مکمل نہ ہوسکی۔
مظفر اخونزادہ کے بھائی انور علی اخونزادہ کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا جبکہ پشاور کی گلیوں نے ایسے کئی جوان ٹارگٹ کلنگ کا شکار ہوتے ہوئے دیکھے ہوئے تاہم مظفر اخونزادہ کے مطابق گزشتہ برس کا حملہ سب سے شدید تھا لیکن اس حملے کے بعد اب تک کا ایک برس اس سے زیادہ تکلیف دہ ہے ہمارے گھر اس وقت کے وزیر اعلیٰ محمود خان، گورنر شاہ فرمان اور کورکمانڈر فیض حمید آئے، ہمارے زخم پر مرحم رکھا اور وعدہ کیا کہ اس کیس کی تفتیش مکمل کی جائے گی لیکن آج بھی ان کے اہل خانہ اس انتظار میں ہیں کہ تفتیش مکمل ہوسکے۔
مظفر اخونزادہ نے کہا کہ یہ کوئی تفتیش نہیں ہے کہ حملہ آور کہاں سے آیا، کہاں چلا گیا اور کس تنظیم نے ذمہ داری قبول کرلی اتنے بڑے حملے کے بعد ایک بھی ذمہ دار کو سزا نہیں ہوئی ایک ایس ایچ او تک کا تبادلہ بھی نہیں کیا گیا اور صرف باتوں پر ٹرخا دیا گیا، ستم ظریفی ایسی کہ کئی متاثرین کو شہید پیکیج سے محروم کردیا گیا اور ان کے اہل خانہ آج بھی دفاتر کے چکر لگا رہے ہیں۔
ماضی میں اہل تشیع کو کس طرح نشانہ بنایا گیا؟
17جنوری 2008 کو ساتویں محرم کی رات ایک کم سن حملہ آور نے خود کو محلہ جھنگی کی امام بارگاہ مرزا قاسم بیگ میں حملہ سے اڑا دیا جس میں 12 افراد جان سے گئے اور 25 زخمی ہوئے تھے۔ محرم امن کمیٹی اور امامیہ جرگہ کا آج بھی یہ گلہ ہے کہ 1985 سے اب تک کسی بھی حملہ، دھماکہ، ٹاگٹ کلنگ کا سراغ نہیں لگایا جا سکا ہے جس کے باعث یہ حملے بار بار ہو رہے ہیں۔
کمیٹی کے مطابق جب تک جوڈیشل کمیشن قائم کرکے ذمہ داران کی نشاندہی نہیں کی جائئےگی یہ حملے نہیں رکیں گے جبکہ کوچہ رسالدار مسجد کے زخمی آج ایک برس بعد بھی اپنے جسم میں چھرے اور بال بیرنگ لئے پھر رہے ہیں نہ تو ان کا علاج درست طریقے سے ہوسکا اور نہ آج تک انہیں امداد دی جا سکی ہے۔
امامیہ جرگہ کا مطالبہ آج بھی یہی ہے کہ ایک خودمختار عدالتی کمیشن قائم کیا جائے جو اس کے پس پردہ حقائق سامنے لائے تاکہ مستقبل میں ایسے واقعات سے بچا جا سکے۔
کوشہ رسالدار دھماکہ پہلا واقع نہیں بلکہ اس سے قبل بھی اہل تشیع برادری کی نماز جمعہ کو نشانہ بنایا جا چکا ہے۔
13 فروری 2015 کو جمعہ کے روز پشاور کے نجی ٹی وی سے وابستہ صحافی سید شبیر شاہ اپنے دوست رضا شگری کے ہمراہ جمعہ کی نماز کی ادائیگی کیلئے حیات آباد کی مسجد پہنچے اس روز شبیر شاہ نماز کیلئے حیات آباد نہیں جانا چاہتے تھے تاہم رضا شگری کے اصرار پر وہ مسجد چلے گئے۔
شبیر شاہ کے مطابق جب مسجد پہنچے تو سکیورٹی نہیں تھی حالات خراب ہونے کے باوجود صرف 4 رضاکار ہی سکیورٹی کی ذمہ داری ادا کررہے تھے جبکہ ایک بھی پولیس اہلکار نظر نہیں آرہا تھا ۔
شبیر کے بقول مسجد میں ظہرین کا اہتمام کیا گیا تھا، ظہر ادا کرنے کے بعد جب عصر کی ادائیگی کے دوران آخری رکعت کیلئے رکوع میں جھکے تو اچانک ایک زور دار دھماکے کی آواز آئی تاہم اس کے باوجود نماز جاری رکھی گئی اور یہی معلوم ہوا کہ مسجد کے باہر کوئی بارودی مواد پھٹا ہے لیکن یہ آواز ابھی گونج ہی رہی تھی کہ فائرنگ شروع ہوگئی یہی گماں تھا کہ باہر موجود سکیورٹی معاملات سنبھال رہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ نماز جاری رہی, مسجد کی چھت پر زور دار دھماکے کی آواز آئی اور مسجد کی درو و دیوار ہل گئی ابھی سوچ سنبھال ہی رہی تھی کہ دھماکوں کی تعداد میں اضافہ ہوگیا اور تقریبا چھت پر 10 گرینیڈز پھنکنے سے دھماکے ہوئے، مسجد کے عقبی راستے سے تقریبا 5 افراد مسجد کے احاطے میں داخل ہوگئے اور نمازیوں پر ٹوٹ پڑی۔
وہ کہتے ہیں کہ مسجد میں 500 سے زائد افراد موجود تھے جس میں سے 22 افراد ہلاک ہوئے تھے تاہم وہ معجزانہ طور موت کی منہ سے زندہ نکل آئے تھے۔
حیات آباد کی شیعہ جامعہ مسجد پر حملے کے بعد کئی شہریوں نے جمعہ کی نماز کی ادائیگی مسجد میں چھوڑ دی لیکن کئی آج بھی اللہ سے رابطہ رکھے ہوئے مسجد ضرور جاتے ہیں. یہ پہلا واقعہ نہیں تھا بلکہ پشاور کی ایک اور شیعہ جامعہ مسجد اور مدرسہ عارف حسینی میں 21 جون 2013 کو خود کش حملہ آور نے 15 افراد کی جان لے لی تھی جبکہ 27 زخمی ہوئے تھے۔
پشاور میں اہل تشیع کے 14مساجد ہیں، جن میں حیات آباد، صدر، عارف حسین مدرسہ چمکنی، مسجد امام علی ابن ابی طالب گلبہار، گنج، مروی ہا، کوچہ رسالدار، گلبہار نہر، وڈپگہ اور دیگر شامل ہیں، میں سے 4 کو براہ راست ٹارگٹ کیا گیا ہے جبکہ حیات آباد کی مسجد، عارف حسین کے مدرسہ، کوچہ رسالدار اور علی ابن ابی طالب میں خود کش حملے ہو چکے ہیں۔
مساجد اور عبادت گاہوں کے علاوہ بھی پشاور کی اہل تشیع برادری مسلسل نشانہ پر ہے امامیہ جرگہ سمیت تمام اداروں کا یہی مطالبہ ہے کہ اس ایک دھماکے کو ٹیسٹ کیس کے طور پر لیتے ہوئے اس کیلئے کمیشن قائم کیا جائے جس روز کمیشن کی رپورات آئے گی دودھ کا دودھ پانی کا پانی ہوجائے گا پھر ان یتیم بچوں کو بھی معلوم ہوگا کہ ان کے سر سے باپ کا سایہ چھیننے والا کون ہے کم عمری میں بیوہ ہونیوالی بھی جان جائیں گی کہ اس کا سہاگ کس نے اجاڑ دیا اور عمر کے آخری حصے میں بیٹوں سے محروم بوڑھے والدین کا دل بھی مان جائے گا کہ انہیں بڑھاپے میں سہارے سے کس نے محروم کردیا۔