واشنگٹن (ڈیلی اردو/ڈی پی اے) یوکرین پر روسی حملے کے بعد سے امریکی ہتھیاروں کی برآمد آسمانوں کو چھو رہی ہے جب کہ یورپ میں ہتھیاروں کی درآمد میں بھی زبردست اضافہ ہوا ہے۔
سویڈن میں قائم عالمی ادارے سپری کے مطابق ایک ایسے موقع پر جب دنیا کے دیگر ممالک میں ہتھیاروں کی درآمد و برآمد میں قدرے کمی دیکھی جا رہی ہے، یورپ ایک متضاد راستے پر گامزن ہے۔
اسٹاک ہوم میں قائم بین الاقوامی انسٹیٹیوٹ برائے امن سپری نے ہتھیاروں کی عالمی تجارت کے گزشتہ چار برس کے ریکارڈ کے جائزے سے ہتھیاروں کی پچھلے ایک برس کی تجارت کی تفصیلات جاری کی ہیں۔
سپری کے محقق پیٹر ویزمن نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا کہ اس تازہ رپورٹ میں دو اہم رجحانات دیکھے جا سکتے ہیں۔ جن میں سے ایک ہتھیاروں کی یورپی ممالک میں ترسیل بڑے پیمانے پر بڑھی ہے، جب کہ امریکہ کی جانب سے ہتھیاروں کی برآمد میں بھی غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔
دو ہزار اٹھارہ سے دو ہزار بائیس کے عرصے میں، دو ہزار تیرہ سے دو ہزار سترہ کے مقابلے میں ہتھیاروں کی عالمی تجارت میں پانچ فیصد کمی ریکارڈ کی گئی۔ دوسری جانب یورپی ممالک میں امریکہ سے حاصل کیے جانے والے ہتھیاروں کی شرح میں سنتالیس فیصد اضافہ دیکھا گیا، ان میں سے پینسٹھ فیصد ہتھیار نیٹو کے رکن ممالک نے حاصل کیے۔ ہتھیاروں کے حصول کی اس دوڑ کی وجہ یوکرینپر روسی حملہ ہے۔
یوکرین، سعودی عرب اور جاپان کیلئے امریکی برآمدات
ماضی میںیوکرین ہتھیاروں کی بین الاقوامی تجارتکا کوئی بڑا کردار نہیں تھا۔ اپنی دفاعی ضروریات کا زیادہ تر یہ ملک اپنے ہاں تیار کرتا تھا جب کہ یہاں سوویت دور کے ہتھیار بھی دفاعی ضروریات کے لیے استعمال کیے جاتے تھے۔ تاہم پچھلے برسوں میں یوکرین دنیا بھر میں ہتھیاروں کو چودھواں سب سے بڑا درآمدکنندہ بن گیا جب کہ صرف دو ہزار بائیس کی بات کی جائے تو اس کا عالمی رینک تیسرا بنتا ہے۔
یہ بات اہم ہے کہ سپری کی رپورٹ میں ہتھیاروں کی منتقلی میں ہتھیاروں کی تجارت بھی گنی جاتی ہے اور مفت عسکری معاونت بھی۔ عسکری معاونت عموماً پرانے ہتھیاروں پر مبنی ہوتی ہے، جو ڈونر ممالک کی جانب سے سپلائی کی جاتی ہے۔
فرانس فائدے میں، جرمنی نقصان میں
پانچ بڑے ہتھیار برآمد کنندہ ممالک امریکہ، روس، فرانس، چین اور جرمنی ہیں۔ گو کہ یہ رینکنگ پچھلی رپورٹ کے مقابلے میں تبدیل نہیں ہوئی، تاہم انفرادی طور پر مختلف ممالک کے حوالے سے خاصی تبدیلیاں نوٹ کی گئی ہیں۔ مثال کے طور پر امریکہ پہلے بھی اس فہرست میں پہلے نمبر پر تھا، تاہم پچھلی رپورٹ کے مطابق وہ ہتھیاروں کی عالمی ترسیل کے چودہ فیصد کا ذمہ دار تھا، تاہم تازہ رپورٹ کے مطابق وہ چالیس فیصد پر ہے۔
فرانس کی جانب سے ہتھیاروں کی فراہمی پچھلی رپورٹ کے مقابلے میں چوالیس فیصد بڑھی ہے۔ تاہم جرمن عسکری کاروبار میں پینتیس فیصد کم دیکھا گیا ہے۔