واشنگٹن (ڈیلی اردو/اے ایف پی/اے پی/رائٹرز) آکس اتحاد کے ایک معاہدے کے تحت آسٹریلیا کو جوہری توانائی سے چلنے والی آبدوزیں فراہم کی جائیں گی تاکہ ہند بحرالکاہل میں چین کے عزائم کا مقابلہ کیا جا سکے۔ بیجنگ اس طرح کے اقدام سے پہلے ہی کافی ناراض ہے۔
امریکی صدر جو بائیڈن نے 13 مارچ پیر کے روز سان ڈیاگو میں آسٹریلیا کے وزیراعظم انتھونی البینی اور برطانوی وزیر اعظم رشی سوناک کی میزبانی کی تاکہ جوہری طاقت سے لیس آبدوزوں کی فراہمی کے منصوبے کی تفصیلات کا اعلان کیا جا سکے۔
یہ اعلان انڈوپیسفک خطے میں چین کے عزائم کے بارے میں بڑھتے ہوئے خدشات کے تناظر میں ہوا ہے، جس پر بیجنگ نے پہلے ہی کافی ناراضی ظاہر کی تھی۔
آکس معاہدے میں کیا ہے؟
امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا پر مبنی آکس اتحاد نے پیر کے روز جس مشترکہ منصوبے کا اعلان کیا ہے، وہ سیکورٹی اتحاد کے اسی پہلے منصوبے کی نمائندگی کرتا ہے جس کا سب سے پہلے سن 2021 میں اعلان کیا گیا تھا۔ اس کے تحت آسٹریلیا کو تین امریکی ورجینیا کلاس کی جوہری توانائی سے چلنے والی آبدوزیں فراہم کرنے کی بات کہی گئی ہے۔
اس ملٹی اسٹیج پروجیکٹ کے تحت برطانیہ اور آسٹریلیا مشترکہ طور پر پہلے نئی آبدوزیں تیار کریں گے اور پھر ایک ساتھ آپریٹ بھی کریں گے۔ یہ ایک طرح سے “سہ فریقی طور پر تیار کی جانے والی” آبدوزیں ہوں گی، جو برطانیہ کی جدید جنریشن کے ڈیزائن پر مبنی ہوں گی اور انہیں برطانیہ اور آسٹریلیا میں تیار کیا جائے گا۔ تاہم اس کا اہم عنصر اس میں امریکہ کی “جدید ترین” ٹیکنالوجی کا استعمال شامل ہے۔
صدر جو بائیڈن نے اس کا اعلان کرتے ہوئے کہا کہ یہ اتحاد کے “آزاد اور کھلے انڈو پیسیفک کے لیے مشترکہ عزم” کا ایک حصہ ہے۔
اس معاہدے کے تحت امریکی اور برطانوی آبدوزوں کی ایک فورس بھی آسٹریلیا میں تعینات کی جائے گی، جو آسٹریلوی عملے کو تربیت دینے اور خطے میں دفاعی قوت کو بڑھانے میں مدد فراہم کرے گی۔
برطانوی وزیر اعظم رشی سوناک کا کہنا تھا کہ یہ شراکت داری اس نوعیت کی ہو گی کہ برطانیہ کی رائل نیوی آسٹریلوی بحریہ کی آبدوزیں آپریٹ کرے گی، جو امریکی بحریہ کے پرزوں اور ٹیکنالوجی سے لیس ہو گی۔
آکس کے بارے میں چین کا موقف
چین کا کہنا ہے کہ آکس اتحاد کا یہ معاہدہ جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے (این پی ٹی) کی صریح خلاف ورزی ہے۔ بیجنگ کا استدلال ہے کہ جوہری ہتھیاروں کے حامل ممالک کی جانب سے غیر جوہری ہتھیاروں والی ریاستوں کو ایٹمی ہتھیاروں کے مواد کی منتقلی معاہدے کی روح کی واضح خلاف ورزی ہے۔
فی الحال جوہری عدم پھیلاؤ کے معاہدے این پی ٹی میں امریکہ، روس، چین، برطانیہ اور فرانس ہی شامل ہیں، جنہیں جوہری ہتھیاروں کی ریاستوں کے طور پر تسلیم کیا جاتا ہے۔ ان ممالک کے علاوہ کسی کے بھی پاس جوہری آبدوزیں نہیں ہیں۔
چینی وزارت خارجہ کے ترجمان ماؤ ننگ نے بیجنگ میں صحافیوں کو بتایا: “ہم امریکہ، برطانیہ اور آسٹریلیا پر زور دیتے ہیں کہ وہ سرد جنگ کی ذہنیت اور کسی کے بھی مفاد میں نہ ہونے والے کو کھیل کو بند کر دیں۔ انہیں نیک نیتی کے ساتھ بین الاقوامی ذمہ داریوں کا احترام کرنا چاہیے اور وہ مزید وہ چیزیں کریں جو علاقائی امن اور استحکام کے لیے سازگار ثابت ہوں۔”
جوہری مادے کے بارے میں آکس ممالک کا کیا کہنا ہے؟
صدر جو بائیڈن نے زور دے کر کہا کہ یہ آبدوزیں “جوہری توانائی سے لیس ہوں گی، تاہم جوہری طور پر مسلح نہیں ہوں گی۔”
انہوں نے کہا کہ ان آبدوزوں میں کسی بھی قسم کے جوہری ہتھیار نہیں ہوں گے۔ “میں اسے اس طرح نہیں دیکھتا کہ ہم جو کچھ بھی کر رہے ہیں، وہ کسی کے لیے چیلنج ہو۔”
واشنگٹن نے 1950 کی دہائی میں برطانیہ کے ساتھ پہلی بار جوہری توانائی سے چلنے والی ٹیکنالوجی کا اشتراک کیا تھا، جس کے بعد اب یہ پہلا موقع ہے کہ اس نے آسٹریلیا کے ساتھ ایسا کرنے کا اعلان کیا ہے۔
آسٹریلیا کے وزیر اعظم البینی نے کہا کہ یہ معاہدہ “ہماری پوری تاریخ میں آسٹریلیا کی دفاعی صلاحیت کے لیے سب سے بڑی واحد سرمایہ کاری کی نمائندگی کرتا ہے۔”
امریکہ اور چین کے تعلقات پر کیا اثرات مرتب ہو سکتے ہیں؟
چینی صدر شی جن پنگ نے پیر کے روز کہا تھا کہ چین کو اپنی سکیورٹی کو مزید بہتر کرنا چاہیے اور اسے “اسٹیل کی عظیم دیوار” بنانے کے لیے فوج کو جدید تر بنانے کی ضرورت ہے۔ وہ پارلیمنٹ کے سالانہ اجلاس کے اختتام پر خطاب کر رہے تھے۔
انہوں نے کہا، “ہمیں قومی دفاع اور مسلح افواج کی جدید کاری کو مکمل طور پر فروغ دینا چاہیے، نیز مسلح افواج کو ایک ایسی ‘آہنی دیوار’ کے طور پر بنانا چاہیے، جو قومی خود مختاری، سلامتی اور ترقیاتی مفادات کو مؤثر طریقے سے تحفظ فراہم کر سکے۔”
صدر جو بائیڈن سے جب یہ سوال پو چھا گیا کہ کیا وہ جلد ہی شی جن پنگ سے بات کرنے کا ارادہ رکھتے ہیں، تو انہوں نے کہا “ہاں۔” تاہم ان سے جب یہ سوال کیا گیا کہ وہ صحافیوں کو بتائیں گے کہ وہ کب بات کریں گے، تو انہوں نے جواب دیا “نہیں۔”
گزشتہ ماہ انہوں نے کہا تھا کہ وہ چینی جاسوس غبارے کے تنازعے کے بارے میں صدر شی جن پنگ سے بات کرنے کی توقع رکھتے ہیں۔